بچپن سے اب تک جگاڑ، حکومتیں جگاڑوں پہ نہیں چلتیں!

ایک ترتیب سے عمران خان کے بیان نوٹ کر لیں۔ گھبرانا نہیں ہے سے لے کر میرے حساب سے اتنے بندے مرنے چاہیے تھے سے آج تک۔ دور دور تک کوئی پروا کسی بھی چیز کی نظر نہیں آتی۔

ایک زمانے میں سیاستدان جس کرسی کے پیچھے بھاگتے تھے وہ بھی جگاڑیں سہہ سہہ کر ایسی رہ گئی ہے۔ (ٹوئٹر)

ہم لوگ تہہ دل سے ایک جگاڑو قوم ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ممکن نہیں ہوتا ہم وہ بھی جگاڑ سے کر لیتے ہیں۔ یہ عادت ایسے شدید طریقے سے ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے کہ نچوڑنے پہ شاید خون بھی اتنا باہر نہ آئے جتنی مقدار جگاڑ کی برآمد ہو گی۔

بچپن میں ہمیں گائے، بکری، بھینس، ڈبے کا اور ماں کا دودھ، سب کچھ ٹرائے کرایا جاتا ہے، جو سوٹ کر گیا سبحان اللہ، ورنہ اگلا آسرا پکڑ لیا۔ 

دنیا بھر میں فیڈر اور بچوں کی دوسری چیزیں ایسے محلول سے دھلتی ہیں جس میں کیمیکل نہ ہوں، اپنے یہاں پہلے دن کا بچہ بھی برتن دھونے والے صابن سے چمکائے گئے برتنوں سے زندگی کی شروعات کرتا ہے۔

چھٹے ساتویں دن “جوائنڈس” ہونے کے بعد جو دوائیوں کا سلسلہ چالو ہوتا ہے وہ مرنے کے بعد رکے تو رکے ورنہ کوئی نہ کوئی ٹھک ٹٌھک لگی رہتی ہے اور سیرپ بھی پچاس قسم کے سرہانے پڑے ہوتے ہیں۔

باہر ملک میں زیادہ اچھلنے کودنے والا بچہ ایکٹو ہوتا ہے، ہمارے یہاں بوہتا تنگ کرنے والے بے بی کو فنرگن پینا پڑتی ہے۔ ہم سے پہلے والی نسل کو تھوڑا سا افیم کا ڈوڈا چٹا دیا جاتا تھا۔ بچہ ٹن، اماں ابا ٹھنڈ پروگرام میں، راہ پیا جانے تے واہ پیا جانے۔ 

گوروں کے بچے جیسے پیدا ہوتے ہیں وہ انہیں قبول کرتے ہیں، ہماری مائیں ہمارے ماتھے بٹھاتی ہیں، سر گول کیا جاتا ہے، ناک کھینچ کھینچ کے لمبی کی جاتی ہے، آنکھوں میں سرمہ ٹھونسا جاتا ہے اور کچھ نئیں تو ماتھے پہ ٹیکا، کان کے پیچھے کالک لگائی جاتی ہے۔ کیا آپ بڑے ہو کے یہ سب کروانا پسند کریں گے؟ 

بیٹی پیدا ہوئی تو ایک چاولوں کا تکیہ کہیں سے آ گیا کہ اس سے سر بہترین گول ہوتا ہے۔ اپنے کو سمجھ نہیں آئی، اوما نے رکھ دیا ایک آدھ دن سر کے نیچے، لو جی اگلے دن چاولوں پہ چیونٹیاں اجتماع کر رہی تھیں۔ سرائیکی میں کہتے ہیں بھکا کے مارنا، بھ پر بھی پیش لگائیں، تو بھکا کے تکیہ پرے مارا، اس دن کے بعد شہزادی سکون سے چھوٹے تکیے پہ سوئی۔ 

بچہ رونا شروع ہو جائے تو ہم لوگ ماں کے نسخوں سے شروع ہوتے ہیں اور دادی، نانی، پڑوسی، انکل، آنٹی، واٹس ایپ، ہر جگہ کے تیر بہدف ٹوٹکے چلا کے اسے چپ کرایا جاتا ہے، جدھر چپ ہو گیا، اگلی بار ٹوٹکوں کی ورکشاپ وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ 

یا پھر زیادہ پوچو پوچو کرنے کے بجائے اسے موبائل پکڑا دیں گے۔ بے بی شارک پتہ ہے کیوں دیکھا گیا کروڑوں بار؟ بچہ ہماری طرح اچھے سے اچھے کی تلاش میں نہیں ہوتا، اسے جو پسند آ جائے وہیں رک جاتا ہے۔ اور بس رپیٹ موڈ شروع۔ تو جدھر رویا وہاں گانے چالو ہو گئے۔ ابے پوچھ تو لو بھوک لگی ہے، پیاس لگی ہے، درد ہے کہیں، نیند آ رہی ہے، سو سو کرنا ہے غریب نے، نہ! جیسے بہت چھوٹے کو رونے پہ منہ میں فیڈر ٹھونستے ہیں ویسے تھوڑا بڑا موبائل پہ لگ گیا۔ یہ جگاڑ نئے بچے بالکل لٹ پیدا کر رہی ہے، ہم سے بھی زیادہ۔  

ہمارے زمانے میں گلی محلے کے بچے ٹائر سے کھیلا کرتے تھے۔ اس سے بڑی کوئی جگاڑ ممکن ہے؟ یعنی بس انے وا بھاگتے جانا ہے اور سوٹی کے ساتھ ٹائر کو بھی بھگانا ہے، کیا ہی کہنے! یا پھر وہ ٹک ٹک کرنے والی گاڑی ہوتی تھی جسے دھاگے سے باندھ کے محلے بھر کو بتایا جاتا تھا کہ اپنی سروس جون کی گرمیوں میں سہ پہر ساڑھے تین بجے بھی چالو ہوتی ہے۔ وہ گاڑی بھی سرے سے ہی جگاڑ تھی۔ مٹی کے ٹائر اور بانس کے تنکے اور ایک آدھا ربڑ بینڈ۔ 

تھوڑے بڑے ہو کے سکول گئے تو وہاں جلد والی کاپی پہ ربڑ بینڈ چار پانچ ربڑ بینڈ چڑھا کے گٹار بجانا سیکھ لیا۔ مزے کی بات ہے چار پانچ سر پورے نکل بھی آتے تھے اس میں سے، وہی کاپی بند کی کھولی تو ہندسوں والا کرکٹ کھیل لیا، اسی کاپی سے انڈے کے ساتھ ڈیسک ٹینس بھی کھیلا، مار پڑنے کا نمبر آیا تو وہی کاپی پتلون میں ڈال کے تشریف ڈھانک لی، مطلب کوئی حد ہے؟ ہم سے پہلے والی نسلیں ہم سے بڑی والی جگاڑوں پر پلی ہیں۔

تو یہ جو تربیت یافتہ نسلیں ہیں نا بھائی صاحب، یہ پورا ملک اسی جگاڑ شریف پہ چلا رہی ہیں۔ یقین کر لیں اس وقت ہم لوگ وہ قوم بن چکے ہیں جو تجربہ گاہ کے چوہوں سے بدتر ہیں۔ جس کا دل چاہتا منہ اٹھا کے وہ کر دیتا ہے جو اس کے فائدے میں ہوتا ہے۔ کسی لیڈر یا ڈکٹیٹر کا کوئی بھی بیان آ جائے جس میں پاکستان، ملک یا جمہوریت کا لفظ آتا ہو۔ قسم کھا کے کہتا ہوں یہ لفظ ہٹا کے اس میں ان کا اپنا نام فٹ کریں، ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ 

جمہوریت خطرے میں ہے= میں خطرے میں ہوں

ملک کو ترقی یافتہ بنائیں گے= خود کو مزید ترقی یافتہ بنائیں گے

پاکستان کا خدا حافظ= میرا خدا حافظ

پاکستان کھپے= میری پارٹی کھپے

ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے= ملک ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے

جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا= میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ 

ووٹ کو عزت دو= مجھے ووٹ دو، مجھے عزت دو

پنجاب بدلا ہے پاکستان بدلیں گے= پنجاب لیا ہے پاکستان لیں گے

تبدیلی آ رہی ہے= میں آ رہا ہوں

دو نہیں ایک پاکستان= کسی کا نہیں بس میری حکومت کا پاکستان

سب سے پہلے پاکستان= سب سے پہلے میں

ملک کا دفاع مضبوط بنائیں گے، دشمن کی کمر توڑ دیں گے وغیرہ وغیرہ 

تو یہ سب آج تک کیوں ہوا؟ کیوں کہ ہم جگاڑوں پر پلتے پلتے دوسروں کی جگاڑیں برداشت کرنے کے بھی عادی ہو گئے ہیں۔ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے، کچھ نہیں کرتا لیکن ہینڈسم تو ہے ۔۔۔ ٹائپ کی باتوں سے اب ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہمیں کتوں بلیوں کی طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ تبدیلی کے نام پر ملک کے ہر شعبے کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد جب سے کرونا آیا ہے مرشدوں نے ات چکی ہوئی ہے۔ جیسے جیسے حالات بگڑ رہے ہیں ویسے ویسے پابندیاں نرم ہو رہی ہیں۔ ایک ترتیب سے عمران خان کے بیان نوٹ کر لیں۔ گھبرانا نہیں ہے سے لے کر میرے حساب سے اتنے بندے مرنے چاہیے تھے سے آج تک۔ دور دور تک کوئی پرواہ کسی بھی چیز کی نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر چیخ چیخ کے اب مرنا شروع ہو چکے ہیں، پرسوں ایک دن میں اٹھتر لاشیں کرونا سے گری تھیں، اور پرسوں ہی ٹرانسپورٹ کھلنے کی میٹنگیں بھی چالو تھیں۔ امریکہ کو ہم پی پی ای گفٹ کر رہے ہیں، جہاز حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین تڑپ رہے ہیں، لاشیں تک سکون سے نہیں مل رہیں، امبر حسیب کے بیان پڑھ لیں، کلیجہ منہ کو آئے گا اور وزیر اعظم نتھیا گلی میں بغلیں بجا رہے ہیں کہ چینی چوری کی فرانزک رپورٹ چھپوا دی۔ حد تو یہ ہے کہ کل کہیں سے اچانک نمودار ہوئے اور پیٹرول سستا کرنے کا ٹوئٹ کر کے یہ جا وہ جا۔ یار اس پیٹرول سے خود کو آگ لگا لیں اب؟ مطلب کیا؟؟؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹھنڈی سانس بھریں اور کہیں اس سے زیادہ بگاڑ ممکن نہیں ہے۔ 

ممکن ہے! یا جگاڑ تیرا ہی آسرا۔ ابھی ہسپتال دروازے تک بھر جانے ہیں، ہر گھر سے کرونا ٹکرانے کی آوازیں آ رہی ہے، حکومت نے پھر بھی نہیں گھبرانا۔ سکون سے قرضے معاف کرانے ہیں اور نئی چندہ مہم چلا دینی ہے۔ کشکول ہمارا قومی نشان، جگاڑ ہماری سیاست اور عوام کی طرف سے ٹھنڈ ہماری حکومتوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ 

لکھ کے رکھ لیں، کرونا سے جو جو زندہ بچ گیا وہ ایسی نسل نہیں ہو گا جیسے ہم سب تھے۔ امریکی اگر وائٹ ہاؤس تک پہنچ سکتے ہیں تو بپھرے ہوئے پاکستانی عوام کسی کا بھی گریبان پکڑ سکتے ہیں لیکن یہ انقلاب نہیں ہو گا۔ یہ محض خانہ جنگی ہو گی، توڑ پھوڑ ہو گی اور لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک جانے والے لوگوں کا بدلہ ہو گا۔ 

جگاڑ پر ملک نہیں چلتے، فرد چل سکتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ