پہلے ڈینیئل پرل کے اغوا کو ثابت کرنا ہو گا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیے کہ 'سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کی سازش راولپنڈی شہر کے ہوٹل میں ہوئی، لیکن یہ سازش کیا ہے اور کیسے ہے یہ بھی شواہد سے ثابت کرنا ہوگا۔'

امریکہ کے مشہور اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ  ڈینیل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی پر ایک خبر پر کام کرہے تھے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس میں ملزمان کی بریت سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سب سے پہلے ڈینییل پرل کے اغوا کو شواہد سے ثابت کرنا ہوگا کہ مغوی ڈینیئل پرل ہی تھے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سندھ حکومت کی اپیل پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی اور جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ معطل کرنے کے لیے درخواست میں غیر متعلقہ دفعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔

جسٹس منظور ملک نے کہا کہ 'سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کی سازش راولپنڈی شہر کے ہوٹل میں ہوئی، لیکن یہ سازش کیا ہے اور کیسے ہے یہ بھی شواہد سے ثابت کرنا ہوگا۔'

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ 'اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اعترافی بیان اور شناخت پریڈ قانون کے مطابق تھی یا نہیں؟حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔'

20 منٹ جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی، جس پر عدالت نے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

سندھ ہائی کورٹ نے دو اپریل کو ڈینیئل پرل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی پھانسی کی سزا کو ختم کر کے سات سال قید کی سزا برقرار رکھی تھی جبکہ دیگر تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلیمان ثاقب کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس سے قبل کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے احمد عمر شیخ کو پھانسی کی سزا دی تھی جبکہ ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلیمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

تاہم 22 اپریل کو سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے تمام ملزمان کو دی گئی سزائیں بحال کی جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب دو مئی کو ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

 ڈینیئل پرل کے والدین رتھ پرل اور جوڈیا پرل نے اپنے بیٹے کے قتل سے متعلق حقائق بیان کرتے ہوئے عدالت کے سامنے چند قانونی سوالات رکھے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ نے شواہد کے برعکس کیسے قتل کے اس مقدمے میں بریت کا فیصلہ جاری کیا؟

سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی درخواست میں انہوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا دو اپریل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

جبکہ اس معاملے پر وفاقی حکومت نے اپیل کا عمل مکمل ہونے تک تمام ملزمان کو نقص عامہ کے قانون کے تحت تین ماہ کے لیے نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ڈینیئل پرل کون تھے؟

ڈینئیل پرل امریکی تحقیقاتی صحافی تھے، جو امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل سے منسلک تھے۔ 2002 میں وہ پاکستان میں شدت پسندوں سے متعلق خبر پر کام کرنے آئے تھے۔

تاہم انہیں کچھ عرصے بعد ہی کراچی سے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ انتہاپسندوں سے متعلق ایک سٹوری پر کام کررہے تھے۔ ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد چند مطالبات بھی کیے گئے تھے مگر بعد ازاں انہیں دوران حراست قتل کر دیا گیا۔

ڈینیئل پرل کو مارنے سے قبل مجرموں کی جانب سے ان کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔ جس میں انہیں زنجیروں میں جکڑا دکھایا گیا تھا۔ اغوا کے ایک ماہ بعد ان کی لاش ملی تھی، جو امریکا کے حوالے کر دی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان