’میری دعا تھی کہ مجھے کرونا ہوا ہو‘: پلازما عطیہ کرنے کی خواہش مند

فیس بک پر ’کرونا ریکورڈ وارئیرز‘ گروپ اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد پلازما عطیہ کرنے کے خواہش مندوں کو پلازما کے ضرورت مند افراد سے جوڑ رہا ہے۔

امریکہ میں ایک لیب ٹیکنیشن عطیہ شدہ پلازما کو فریز کرتے ہوئے (اے ایف پی)

’میں نے جب اپنا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا تو دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ مجھے کرونا وائرس ہو یا ہو چکا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا ٹیسٹ مثبت آیا جس سے مجھے معلوم ہوا کہ میں تین ہفتے پہلے اس کا شکار ہوچکی ہوں۔ ان تین ہفتوں میں مجھے کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔‘

کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر کون خوش ہو سکتا ہے؟ مگر ثوبیہ [فرضی نام کیونکہ ان کے والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹی میڈیا یا کسی اور کو بتائیں کہ انہیں کرونا بیماری ہوئی تھی] خوش ہیں۔ ان کی خوشی کے پیچھے ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ اب یہ اپنا پلازما کسی کرونا وائرس کے مریض کو عطیہ کر سکتی ہیں۔

ثوبیہ سے ہمارا رابطہ ایک فیس بک گروپ ’کرونا ریکورڈ وارئیرز‘ کے ذریعے ہوا۔ اس فیس بک گروپ کو بنے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ اس کے ارکان کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس گروپ کے بانی  زوریز ریاض لمز کے گریجویٹ اور ایڈورٹائزنگ کے پیشے سے منسلک ہیں اور گلوکار بھی ہیں۔ 

زوریز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کرونا بیماری کے حوالے سے مجھے خوف تھا کہ یہ یہاں کس حد تک پھیلے گی اور اس کا کیا بنے گا؟ دوسری جانب پلازما عطیہ کرنے کے حوالے سے مدد کرنے والا کوئی پلیٹ فارم سرکاری یا نجی سطح پر نہیں ملا جو ہمیں کچھ بتا سکے۔

'اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ گروپ بنایا جو کرونا متاثرین کو آپس میں جوڑ سکے، مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ گروپ اس طرح وائرل ہو جائے گا لیکن اس کا مقصد پلازما لینے اور دینے والوں کے درمیان ایک پل قائم کرنا تھا۔‘

ثوبیہ بھی اس گروپ کی ایک متحرک رکن ہیں۔ ان کے خالو چند روز قبل کرونا وائرس کا شکار ہوئے۔ وہ بتاتی ہیں کہ خالو کے دو ٹیسٹ ہوئے جو منفی تھے مگر عید والے دن وہ دو مرتبہ بے ہوش ہوئے، جب انہیں سی ایم ایچ لے جایا گیا تو وہاں ان کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ انہیں ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا اور ان کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا پڑا۔

ثوبیہ کے کزن نے انہیں فون کر کے بتایا کہ ڈاکٹرز پلازما مانگ رہے ہیں۔ ان کے خاندان میں ان کے بلڈ گروپ کے دو لوگ تھے مگر انہیں کرونا نہیں ہوا تھا لہٰذا ثوبیہ نے اپنے دوستوں سے معلوم کیا مگر ڈونر نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمیں ایک ایسے شخص کا پلازما چاہیے تھا جو کرونا وائرس سے صحت یاب ہوا ہو اور اس کا بلڈ گروپ خالو کے بلڈ گروپ سے میچ کرتا ہو، بس پھر میں نے سماجی رابطوں کی سائٹس پر پلازما کی تلاش شروع کی اور ایک پوسٹ لکھی جسے میں نے ہر ممکن گروپ پر شئیر کیا۔

'میری اس پوسٹ کو کسی نے ’کرونا ریکورڈ وارئیرز‘ کے گروپ میں شئیر کر دیا، یوں میں اس گروپ کا حصہ بن گئی۔ میں نے اس گروپ کو اوپر سے نیچے تک تلاش کیا، جس دوران مجھے اسفندیار خان نامی ایک ممبر کی پوسٹ ملی جس میں لکھا تھا کہ وہ کرونا سے صحت یاب ہوچکے ہیں اور اپنا پلازما عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

’صبح کے چار بجے میں نے ان سے رابطہ کیا اور ساڑھے چار بجے اسفندیار کا میسج آگیا جس کے بعد میں نے ان کا اپنے کزن سے رابطہ کروا دیا۔  اگلے ہی روز اسفندیار کے بلڈ ٹیسٹ ہوئے، اس سے اگلے روز ان کے رزلٹس آئے اور وہ پلازما دینے کے لیے تیار تھے، وہ پلازما میرے خالو کو لگا تو ان کی طبعیت میں کافی بہتری ہے۔‘

اسفندیار خان خود بھی ایک ڈاکٹر اور راولپنڈی کے رہائشی ہیں۔ کرونا سے صحت یاب ہونے والے یہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس گروپ میں پلازما عطیہ کرنے کی پوسٹ شئیر کی تھی۔

ڈاکٹر اسفندیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیسے ہی انہوں نے اس گروپ میں لکھا کہ وہ اپنا پلازما عطیہ کرنا چاہتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں مختلف شہروں سے لوگوں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ ’میں کوئی ایسا مریض ڈھونڈ رہا تھا جس کا تعلق اسلام آباد یا راولپنڈی سے ہو پھر اسی رات میرا رابطہ ثوبیہ اور ان کے کزن سے ہو گیا۔‘

ڈاکٹر اسفندیار نے بتایا کہ ان کا مریض سے کوئی آمنا سامنا نہیں ہوا۔ ’میں نے بلڈ بینک میں جا کر پلازما دیا۔ اس میں ایک ہی سوئی لگتی ہے جس کے ذریعے انسانی جسم سے خون نکل کر ایک مشین میں جاتا ہے، وہ مشین خون سے پلازما الگ کر لیتی ہے اور خون آپ کے جسم میں واپس بھیج دیتی ہے۔ اس سارے عمل کا دورانیہ 40 سے 45 منٹ ہے۔‘

ڈاکٹر اسفندیار نے بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد وہ 23 روز تک قرنطینہ میں رہے اور جب ان کا ٹیسٹ منفی آیا تو اس کے  16 روز بعد انہوں نے اپنا پلازما عطیہ کیا۔ 

انہوں نے بتایا کہ انہیں اس گروپ کا پہلے معلوم نہیں تھا البتہ وہ جانتے تھے کہ ٹیسٹ منفی آنے کے 14 روز بعد پلازما عطیہ کیا جاسکتا ہے۔ ’میں نے 14 روز ہونے سے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ میں کسی کرونا کے مریض کو اپنا پلازما عطیہ کروں گا اور اسی لیے میں نے فیس پک پر مختلف گروپس تلاش کرنے شروع کیے۔

'جب میں نے ’کرونا ریکورڈ وارئیرز‘ گروپ میں بھی شمولیت اختیار کی تو میں نے دیکھا کہ یہاں لوگ عطیہ تو مانگ رہے تھے مگر یہ کوئی نہیں لکھ رہا تھا کہ میں عطیہ دینے کے لیے تیار ہوں۔‘

ڈاکٹر اسفندیار کے خیال میں ہمارے ہاں پلازما عطیہ کرنے کے عمل کو دیر سے شروع کیا جاتا ہے۔ ’بات یہ ہے کہ اگر ایک مریض وینٹی لیٹر پر چلا گیا ہے توسمجھیں وہ آخری سٹیج پر ہے اس پر مزید انتظار نہیں بنتا کیونکہ اس میں تو کچھ گھنٹوں یا دنوں کا وقت ہوتا ہے۔ میں نے ایسی کئی پوسٹس دیکھیں کہ جس میں پلازما مانگا گیا مگر پھر دو گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ مریض انتقال کر گئے ہیں۔‘

ڈاکٹر اسفندیار خان کہتے ہیں: ’مجھے بہت اچھا محسوس ہوا اور میں دعا کرتا ہوں کہ جنہیں میرا پلازما لگا وہ صحت یاب ہوں اور ساتھ ہی میں اس انتظار میں بھی ہوں کہ میرے پانچ دن پورے ہوں تو میں پھر سے اپنا پلازما عطیہ کروں کیونکہ پلازما ہفتے میں دو مرتبہ بھی عطیہ کیا جا سکتا ہے۔‘

ثوبیہ کے خالو کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ گروپ ایک سپورٹ گروپ بن چکا ہے جہاں لوگ رضا کارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے خالو کے لیے پلازما تلاش کر رہیں تھیں تو انہیں سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایک لمبی چوڑی فون نمبرز کی لسٹ بھی ملی جس پر مبینہ طور پر کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے فون نمبر درج تھے جو پلازما عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔

ثوبیہ کے مطابق اس لسٹ میں شامل سبھی نمبر یا تو کسی کے استعمال میں نہیں تھے یا بند تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ اس وقت ایسی کوئی معلومات شئیر نہ کریں جوغلط ہیں کیونکہ اس طرح ایک امید پیدا ہو جاتی ہے اور جب امید ٹوٹتی ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔

ثوبیہ نے بتایا: ’گروپ میں اگر کسی کو بی پازیٹو بلڈ گروپ کا پلازما چاہیے تو میں بی پازیٹو ہوں۔ میرے والد اور بھائی میرے خلاف ہیں کیونکہ اس بیماری کے ساتھ جو ڈر جڑا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے یا ہمیں کہیں لے جا کر بند کر دیا جائے گا اس وجہ سے میرے والد شدید ذہنی دباؤ میں ہیں۔

'میں نے انہیں سمجھایا کہ مجھےکوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، میں نہیں جانتی کہ میں نے کس کس کو بیمار کیا ہے مگر اب مجھے اس بیماری کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہے۔‘

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم جب کسی بھی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو جسم کے اندر وائٹ بلڈ سیلز جو اینٹی باڈیز کا کام کرتے ہیں وہ اس بیماری کے خلاف قدرتی طور پر بنتے جاتے ہیں۔

اسے قوت مدافعت یا امیونٹی کہتے ہیں۔ یہ قوت مدافعت ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتی۔ پلازما اسی طرح ہے کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے انسان کے جسم سے ہم اینٹی باڈیز نکال لیتے ہیں اور جو بیمار ہے اسے لگا دیتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کے نتائج اچھے بھی آرہے ہیں مگر بعض اوقات یہ دوسرے جسم میں جا کر غلط ردعمل بھی ظاہر کرسکتا ہے۔

’کرونا ریکورڈ وارئیرز‘کے بانی زوریز ریاض نے ایک فارم بھی ترتیب دیا ہے جس میں کرونا سے صحت یاب ہونے کے بعد پلازما عطیہ کرنے والوں کی تفصیلات درج کی جائیں گی۔ 

’اب تک اس  فارم کو بھرنے والوں کا تعلق دوحہ، دبئی اور پاکستان میں سوات، کراچی، فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد، پشاور وغیرہ سے ہے۔ ڈونرز کا ایک ملا جلا پول بن گیا ہے۔

'میں اس وقت کوشش یہ کر رہا ہوں کہ حکومت کے ساتھ رابطہ کروں تاکہ ہمارے پاس کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا ڈیٹا ریکارڈ بن سکے۔ میں اس بات کی یقین دہانی کروں گا کہ جو بھی ڈیٹا ہمارے پاس اکٹھا ہو وہ خفیہ رہے اور ڈونر سے پوچھ کر ان کا نمبر آگے عطیہ لینے والوں کو پہنچایا جائے۔‘

زوریز کا خیال ہے کہ کچھ لوگ پلازما عطیہ کرنے سے بھی ڈرتے ہیں کہ نہ جانے کیا ہو جائے، شاید انہیں کرونا مریض کے ساتھ ہی بٹھا کر پلازما لیا جائے گا اور وہ پھر اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں گے۔

’ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو پلازما عطیہ کرنا چاہتے ہیں ان کا خوف ختم کیا جائے اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہمارے علاوہ محکمہ صحت بھی اس کی آگاہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہم مل کر ڈونرز اور مریضوں کو جوڑتے جائیں اس طرح ہمارا کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا ریٹ بہتر ہوجائے گا۔‘

زوریز نے بتایا کہ انہوں نے لاہور میں محکمہ صحت کے کچھ لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہیں فی الحال کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔

زوریز نے یہ بھی بتایا کہ اس گروپ کا کنٹرول انہوں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے تاکہ جعلی اکاؤنٹس اس کا حصہ نہ بنیں۔ ’اس میں تعلیم یافتہ لوگ شامل ہو رہے ہیں، جنہیں علم ہے کہ کرونا کے حوالے سے دنیا بھر میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور کون سی معلومات گروپ میں شئیر کرنی ہیں۔ ایک طرح سے یہ ایک فیملی بن رہی ہے۔

'اگر ایک پوسٹ آتی ہے کہ انہیں پلازما یا خون چاہیے تو گروپ کے مختلف ممبر اس پوسٹ کو اچھی طرح پھیلاتے ہیں اور اس طرح پلازما لینے والے ڈونرز کے ساتھ خود ہی جڑتے جاتے ہیں۔‘

زوریز کہتے ہیں کہ اس گروپ میں شامل ہونے والے اراکین کا تعلق پورے پاکستان سے ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو پلازما ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ بھی جو کسی نہ کسی طرح کرونا کے مریضوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان