کرونا نے پاکستان میں 'سب سے کم فیس' لینے والا ڈاکٹر بھی چھین لیا

جنرل فزیشن ڈاکٹر پھاگ چند 65 سال کی عمر میں پیر کو اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کرونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر پھاگ چند(تصاویر جاسویندر ملہوترا/ فیس بک)

یہ 1990  کی دہائی تھی جب ایک سکھ ڈاکٹر کو ضلعی ہسپتال صوابی میں تعینات کیا گیا۔عموماً پاکستان میں ڈاکٹر حضرات صبح سرکاری ہسپتالوں میں ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد شام میں نجی پریکٹس کرتے ہیں لیکن یہ سکھ ڈاکٹر زیادہ تر سرکاری ہسپتال میں اپنی شام کی ڈیوٹی لگواتے کیونکہ وہ صبح اپنی نجی کلینک پر دور دراز سے آنے والے غریب اور نادار مریضوں کو دیکھتے تھے۔

یہ سکھ ڈاکٹر پھاگ چند تھے، جو 65 سال کی عمر میں پیر کو اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کرونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر چند کی ایک بیٹی اور دو بیٹے بھی اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیرکے علاقے پاچا کلے سے تعلق رکھنے والے جنرل فزیشن ڈاکٹر چند نے پشاور کے خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی۔ عوام میں ان کی مقبولیت کی ایک  وجہ ان کی کم فیس تھی، جس کی وجہ سے علاقہ مکین  انہیں 'غریبوں کا مسیحا' کہتے تھے۔

ڈاکٹر چند کے دوست اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ضلع صوابی اور پشاور کے سابق ضلعی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر گل محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھیں یاد ہے کہ جب ڈاکٹر چند کا 90 کی دہائی میں ضلع صوابی تبادلہ کیا گیا تو وہ اپنے نجی کلینک میں 10 روپے فیس لیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر گل نے بتایا کہ جب صوابی میں ان کا تبادلہ کیا گیا تو بونیر سے تعلق رکھنے والے بہت سے مریض ان کے پاس صوابی آتے تھے۔ 'ڈاکٹر چند نہایت ہی ایمان دار تھے۔ جب میں ضلعی ہیلتھ آفیسر تھا تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے خلاف کسی نے کوئی شکایت کی ہو یا انھوں نے ڈیوٹی میں کوئی کوتاہی برتی ہو۔ وہ اکثر مسلمانوں کے مذہبی تہواروں پر چھٹیوں کے دوران مسلمان ڈاکٹروں کی جگہ ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے۔'

ڈاکٹر گل نے مزید بتایا کہ تقریباً 10 سال صوابی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ان کا تبادلہ نوشہرہ کیا گیا لیکن وہ صوابی میں اتنے مقبول تھے کہ ایک دن کے لیے وہاں بھی نجی کلینک کھول رکھا تھا، جہاں کی فیس 50 روپے تھی اور شاید یہ پاکستان میں کسی بھی ڈاکٹر کی سب سے کم فیس ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے ڈاکٹر چند کے بارے میں بتایا کہ وہ مریضوں کو غیر ضروری ادویات نہیں لکھتے تھے، وہ کسی دوا ساز کمپنی کی اشتہاری مہم میں شامل ہوتے تھے اور نہ ہی کسی مخصوص کمپنی کی دوائیاں لکھتے۔

'وہ کوشش کرتے تھے کہ مریض کو وہی دوا تجویز کریں جو سرکاری ہسپتال میں میسر ہو تاکہ مریض کو باہر سے دوا نہ لینی پڑے۔ وہ مریض سے پہلے اس کی معاشی حالت کے بارے میں پوچھتے اور اگر کوئی مزدور یا غریب مریض آتا تو اپنی فیس معاف کر دیتے۔'

مریض کے ساتھ گپ شپ لگانے والے ڈاکٹر چند

ضلع صوابی کے بعد ڈاکٹر چند ضلعی ہسپتال نوشہرہ کے ڈپٹی میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے عہدے پر فائز رہے اور اسی ہسپتال کے عقب میں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے۔

 ڈاکٹر چند سے تین بار علاج کرنے والے نوشہرہ کے رہائشی سید عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کی طبعیت بگڑ گئی تو ایک دوست نے انہیں ڈاکٹر چند کے بارے میں بتایا ، یوں  میری ان ڈاکٹر سے پہلی ملاقات ہوئی۔

باسط کہتے ہیں کہ مجھے دوست نے بتایا تھا  کہ یہاں ایک سکھ ڈاکٹر ہیں جو رات کو بھی مریض دیکھ لیتے ہیں، جب میں ڈاکٹر چند کے پاس گیا تو ان کے  گھر میں کئی مریض پہلے سے موجود تھے۔

باسط کے مطابق  ان کے بارے میں مشہور ہے کہ  جب انھوں  نے اپنی فیس بڑھا کر 100 روپے کر دی تو رات میں ان کی والدہ ان کو خواب میں آئیں اور کہا، 'تم نے فیس بڑھا کر غریبوں کے ساتھ زیادتی کی ہے،  لہٰذا انھوں نے فیس دوبارہ 50  روپے کر دی۔

ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے صحافی شہاب اللہ یو سفزئی نے بتایا کہ چونکہ ڈاکٹر چند شروع دن سے 50 روپے فیس لیتے تھے تو باقی ڈاکٹرز ان سے شکایت کرتےکہ 'آپ نے ہماری مارکیٹ خراب کی ہے اور ہمارے مریض آپ کی طرف آرہے ہیں۔'

شہاب کے مطابق، ڈاکٹر چند نے آخری دنوں میں فیس میں 50  روپے اضافہ کر کے 100  روپے کر دی تھی، تاہم غریب اور غیر مسلموں کے لیے کوئی فیس نہیں تھی اور وہ کسی بھی وقت اپنا معائنہ کرا سکتے تھے۔

ڈاکٹر گل نے بتایا کہ ڈاکٹر چند کے پاس اتنے زیادہ مریض آتے تھے کہ ہسپتال انتظامیہ ان کو مزید ادویات فراہم کر دیتی تاکہ وہ مریضوں کی سہولت دے سکیں۔

سوشل میڈیا پر بھی ڈاکٹر چند کی خدامات کو سراہا جا رہا ہیں۔ برطانیہ کے پاکستان میں ہائی کمشنر کرسٹائن ٹرنر نے ٹوئٹر پر ڈاکٹر چند کے خاندان سے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ ڈاکٹر چند نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی مدد کرنے میں گزاری۔ 'روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے خلاف ان جیسے بہادر لوگ فرنٹ لائن پر لڑتے ہیں اور ہم ان کے خدمات کو سراہتے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان