قاضی عیسیٰ کیس اور عدالت کا سوال: ’ہمیں جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں‘

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔

(اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بظاہر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کرپشن کا نہیں بلکہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رُکنی لارجر بینچ نے بدھ کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اہل خانہ کے نام پر لندن میں موجود پراپرٹی ظاہر نہیں کی۔

بینچ نے سوال کیا کہ 'ہمیں جج کی بد دیانتی یا کرپشن دکھائیں۔ ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے۔ جج شیشے کے گھرمیں ہے لیکن جوابدہ ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی لیکن آرٹیکل 209 ججز کو ذاتی حملوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔'

اس کیس کی پیروی کے لیے پیر کو استعفیٰ دینے والے سابق وزیر قانون بیرسٹرفروغ نسیم گذشتہ روز کے مقابلے میں آج سماعت کے دوران نسبتاً زیادہ پراعتماد نظر آئے۔

انہوں نے اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ وہ گذشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات کے جواب دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 10 اپریل، 2019 کو وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی، آٹھ مئی کو انہوں نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا، جس میں لندن پراپرٹیز کی قیمتِ خرید اورمارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ 'فروغ نسیم یہ بتائیں کہ لندن پراپرٹیز کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں؟ وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی؟ اور اے آر یو نے شکایت پرانکوائری کا آغاز کیسے کر دیا؟

اس پر حکومتی وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ان کے پاس عدالت کے تمام سوالات کے جواب ہیں کہ اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ 1988 کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کاریکارڈ اوپن ہے اور اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اُس کے بعد حکومتی وکیل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی فیملی کی پراپرٹی کی موجودہ مالیت کی تفصیلات فل کورٹ کےسامنے رکھیں اور عدالت کو بتایا کہ لندن میں دو لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز سے خریدی گئی پراپرٹی کی موجودہ مالیت چار لاکھ پاؤنڈز ہے، اسی طرح دو لاکھ 70 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی دوسری پراپرٹی کی موجودہ مالیت چار لاکھ 38 ہزار پاؤنڈز ہے، یہ جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر ہیں، جنہیں ٹیکس ریٹرنز میں ڈیکلیئر نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی اور سوال اٹھایا کہ 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے جبکہ 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمربھی زیادہ نہیں تھی؟

انہوں نے کہا کہ بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔ اس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال اُٹھایا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟

ج واباً حکومتی وکیل نے کہا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔'ایف بی آر حکام کو خوف تھا  کہ جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔'

جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم سے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں ہر ایک کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق ہے،مقدمے کے حوالے سے ہر ایک چیز کا جائزہ لیا جائے گا ، کسی نقطے کو بغیر جائزہ لیےنہیں چھوڑا جائے گا۔' یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں تھے۔ اس سارے معامے میں کسی چیز کو کٹ شارٹ نہیں کیا جاسکتا۔'

عدالت نے شکایت کنندہ پر بھی سوال اُٹھائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے نام کا پتہ کیسے چلا؟ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کے سپلینگ تک نہیں آتے اور جب نام کے سپلینگ درست نہیں ہوں گے تو ویب سائٹ پر سرچ کیسے ہو سکتا ہے؟

جسٹس مقبول باقر نے بھی اسفتسار کیا کہ وحید ڈوگر کس میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں؟ ان کا ماضی کیا ہے؟ ان کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز ہوگیا۔ کیا انہیں غیب سے معلومات ملی ہیں؟ اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہوتے ہیں۔ کیا ان کے کوائف کا جائزہ لینا ضروری نہیں تھا؟

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق مجھے معلومات کو دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف انکوائری کے لیے صدرِ مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی،  وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اےآر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی۔ فروغ نسیم نے عدالت کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا زرعی زمین پر ایگری کلچرل ٹیکس دینے کا ریکارڈ نہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا جواب دینے کی بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔'

جسٹس یحییٰ آفریدی نے نکتہ اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ریفرنس کی کاروائی کو زیر بحث لائیں؟ صدر مملکت نے جب ریفرنس کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس کیا معلومات تھی؟ صدر مملکت نے ریفرنس کےحوالے سے معلومات خود حاصل نہیں کی۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج منی ٹریل دے دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 'کیا قانون کے تحت جج صاحب منی ٹریل دینے کے پابند ہیں؟ آپ سوال پر آتےنہیں اور قانون بھی نہیں دکھا رہے ہیں۔ جج کہتا ہے کہ پراپرٹیز کا مجھ سے نہیں متعلقہ لوگوں سے پوچھیں۔'

ان سوالات پر حکومتی وکیل نے کہا کہ 'میرا ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔' جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر پیسے بینکوں کے ذریعے گیا ہے تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟ عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کر لیں۔

عدالتی سوالات:

  • کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے، ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
  • اگر صدارتی ریفرنس میں نقص ہیں تو کونسل سوموٹو کارروائی کر سکتی ہے؟
  • کیا جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے؟
  • فرض کر لیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے، جس کے پس پردہ مقاصد ہیں۔ کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے؟
  • کیا کونسل ریفرنس میں کمی کوتاہی نظر انداز کر کے کارروائی کر سکتی ہے؟
  • اے آر یو نے کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ  رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی؟

ان تمام سوالوں کے تحریری جواب کل جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت جمعرات ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان