ڈئیر سنتھیا ! یہ تم کہاں پھنس گئیں

اچھا خاصا تم دستاویزی فلمیں بنا رہی تھیں، تم ہماری غیور افواج کے جوانوں کے ساتھ تصاویر میں بھی بالکل فٹ تھیں۔ تم پولیس والیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے تو کتنی سادہ و معصوم لگتی تھیں۔

(انسٹاگرام-سنتھیا رچی)

ہم پاکستانی یوں بھی بڑے مست ملنگ واقع ہوئے ہیں، جب بھارت پاکستان کو جنگ کی تڑیاں لگا رہا تھا ہم تو اس وقت بھی بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی تصویریں لگا لگا کر بھارت کا منہ چڑا رہے تھے۔

ہمیں شغل چاہیے ، چاہے وہ کرونا کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو کیا لگا سوشل میڈیائی عوام کو فلمی اداکارہ عظمیٰ خان سے اتنی ہمدردی تھی کہ کسی ٹھیکیدار کی بیٹیوں کے خلاف پوری قوم یک زبان ہوگئی ؟ چونکہ اس کیس میں وہ گھر نشانے پر تھا جس کی بیری پر پتھر مارنا بھی خود کشی سے کم نہیں اس لیے دُکھیا عظمیٰ خان کا ناتواں کندھا ملا اور لوگوں نے چسکے لینے شروع کردیئے۔

شغل تھا جناب ، دو دن کا میلہ!

ایسے ہی شغل کا مواد اب سنتھیا رچی فراہم کررہی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ امریکی شہری ہیں جو کہ پچھلے دس برسوں سے کسی نہ کسی بہانے پاکستان میں ہیں۔ یہ بیک وقت سیاح ، سیاسی پنڈت ، جاسوس، سوشل میڈیا ایکسپرٹ ، میڈیا ڈائریکٹر ، پروڈیوسر ، بلاگر ، رائٹر ، فائٹر وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہیں۔

چونکہ شغل لگانا ہمارا قومی ٹائم پاس ہے اس لیے کمپیوٹر کے دور سے پہلے ، یعنی ہمارے بزرگوں کی تفریح طبع کے لیے کچھ اور انتظام تھا ۔ ان دنوں اخبار کے اسٹالوں پر لٹکی ، کتابوں کی دکان میں پہلے شیلف پر رکھی اور ہر کتب میلے میں ہاتھوں ہاتھ بکتی ایک کتاب ضرور نظر آتی ہے ’پارلیمنٹ سے بازار حسن تک‘ ۔ اس کتاب نے بڑا رش لیا۔ مزے کی بات اس کتاب میں جن جن سیاستدانوں کا منہ کالا کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں ووٹ دے کر پاکستانی عوام بار بار حکمران بناتے رہے۔ یعنی کتاب کا مقصد تو جو تھا سو تھا عوام نے سبق تو نہ لیا البتہ چسکے خوب لیے۔

ایسے ہی پاکستانی سیاستدان غلام مصطفیٰ کھر کی سابق اہلیہ تہمینہ درانی نے ’مائی فیوڈل لارڈ‘ (مینڈا سائیں) لکھ کر بتانا تو شاید کچھ اور چاہا تھا مگر قارئین کی اکثریت کتاب کے وہ ورق چاٹ گئی جس میں سیاسی غلام گردشوں کے درمیان پنپتی جنسی زندگیوں کے قصے تھے۔

چند دن مائی فیوڈل لارڈ کے انکشافات کا میلہ لگا، تماش بین دور دور سے یہ میلہ دیکھنے آئے۔ اور پھر یہ کتاب شیلف کے کسی کونے میں دوسری کہانیوں تلے دب گئی۔ کھر خاندان بھی وہیں ہے، سیاست کے سائیں بھی نہیں بدلے۔

ریحام خان کے ہوش ربا انکشافات کی پی ڈی ایف فائل سوشل میڈیا پر خوب ہاتھوں ہاتھ وائرل ہوئی۔ کتاب میں ان کی زندگی کی جدوجہد، ان کا بچپن جوانی، صحافت میں گزارے چند برس، پی ٹی آئی دھرنا سیاست سب کچھ لکھا ہے لیکن یہ معلومات اصل فلم سے پہلے دکھائے جانے والے غیر متاثر کن اشتہارات کی مانند تھیں جسے فلم بین فارورڈ کرکے آگے بڑھا دیتے ہیں۔

ریحام خان کی سوانح عمری میں لوگوں نے ریحام نہیں ان کے سابق شوہر عمران خان کو ڈھونڈا۔ قارئین کی اکثریت نے اس کتاب میں پاکستان کے ممکنہ وزیر اعظم کی جنسی زندگی کے بند پنے کھول کھول کر پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لی۔ کتاب آج بھی موجود ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی آج بھی مراد سعید کی دھواں دھار تقریروں سے گونجتی ہے۔

اور وہ حریم شاہ جو کسی ان دیکھے صلح نامے کے باعث آج کل چپ ہے۔ وہ تو کوئی پرانی بات نہیں۔ حریم شاہ کے ذریعے دکھانے والوں نے بڑی فلموں کا صرف ٹریلر جاری کیا۔ عوام کے تو مزے آگئے، حریم شاہ اور ان کی ساتھی صندل خٹک کی ویڈیوز نے کھڑکی توڑ رش لے کرثابت کیا کہ پوری فلم پر سرمایہ کاری سے بہتر چھوٹے چھوٹے ٹوٹے ہوتے ہیں جوکہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے سوالات کے ساتھ جلدی وائرل ہوتے ہیں۔

حریم شاہ کی ویڈیوز میں موجود نامی گرامی چہروں پر کارٹون کا سینسر لگا کر شغل خور پاکستانیوں سے جدید دور کی ’ کسوٹی‘ کھیلی جاتی رہی۔ فریقین میں معاملہ پسندی کے ساتھ صلح ہوگئی یوں ہونا وونا تو کیا تھا عوام کا اچھا ٹائم پاس ہوگیا۔

اب سنتھیا نامی سوشل میڈیا سلیبرٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے کردار پر کیچڑ اچھال کر جس گند میں ہاتھ لتھیڑے ہیں اسے دریائے ہڈسن کا پانی ہی صاف کرے تو کرے، سندھ دریا تو ایسے میلے ہاتھ دھونے سے باز رہا۔ سنتھیا ان دنوں کسی کو بخشنے کے موڈ میں نہیں یہاں تک کہ وہ ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب کی امریکی گلوکارہ کے مومی مجسمے کے ساتھ بنائی تصویر پر بھی معترض ہیں۔

یہ غیر ملکی ہم پاکستانیوں کو نجانے پتھر کے زمانے کا سمجھتے ہیں ، انہیں کوئی سمجھائے کہ وہ امریکہ ہی تھا جہاں اپنی سیکرٹری سے اس کی مرضی منشا کے ساتھ وائٹ ہاوس میں جنسی افئیر چلانے پر بل کلنٹن کا بھی کانگریس نے مواخذہ کر دیا تھا۔

ہم پاکستانی بڑے فراخ دل لوگ ہیں ، ہمارے یہاں سیاستدانوں اور جرنیلوں کی اوچھی کہانیاں تو بہت ملیں گی مگر آج تک کوئی بااثر شخصیت کالے کرتوتوں پر ذلیل و رسوا کر کے سیاست سے بے دخل نہیں کی گئی۔ کم از کم ایسی وسعت نظری اور شخصی آزادی میں ہم امریکہ سے کافی آگے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے یہاں مشہور ہے کہ ایوانوں نے جنرل رانی جیسے کردار دیکھے تو تاک کر سیلوٹ مارے گئے، کراچی کی سڑکوں پر وال چاکنگ کے ذریعے سیتا وائٹ نامی کسی گوری کے حق میں نعرے لکھے گئے مگر یہ سکینڈل بھی عمران خان کے وزیراعظم بننے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے. ایسے واہیات نجی معاملات ہمارے ملک میں صرف  سرخیاں بناتے ہیں مقدمے نہیں.

اب چئیرمین نیب کے خلاف وڈیو ثبوتوں کے ساتھ سامنے لائی جانے والی خاتون طیبہ فاروق کا معاملہ ہی لے لیں۔ نیب کے دفتر میں نازیبا حرکات کی ویڈیوز سے عوام کو ’سر سے پاوں تک احتساب‘ کا نیا نعرہ مل گیا، دو دن شغل لگا اور ٹائیں ٹائیں فش۔ بتائیں ایسی حال مست بھولی بھالی قوم بھلا کہاں ملے گی۔

ڈئیر سنتھیا، اچھا خاصا تم دستاویزی فلمیں بنا رہی تھیں۔ تم ہماری غیور افواج کے جوانوں کے ساتھ تصاویر میں بھی بالکل فٹ تھیں۔ تم پولیس والیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے تو کتنی سادہ و معصوم لگتی تھیں۔ تم نے ہم پاکستانیوں کو اخلاقیات پر لیکچرز دیئے، چلو ہم گوری چمڑی سے لیکچر سننے کے عادی ہیں سو تمھیں بھی سنتے رہے۔

کس بدبخت نے تم جیسی باصلاحیت خاتون کو پارلیمنٹ سے بازار حسن تک کا راستہ ناپنے پر لگا دیا۔ یہ تم کس جھمیلے میں پڑ گئیں۔ اس کار خیر میں خود کو ہلکان کیوں کرتی ہو۔ ہمارے یہاں اچھی انٹرٹینمنٹ کی شدید کمی ہے اس لیے شغل لگانے کو اور بہت میلے لگتے رہتے ہیں۔ اس لاحاصل مہم سے اچھے اچھوں کو سیاسی مقصد نہ مل سکا، تم تو پھر امریکی ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر