بلوچستان: جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے

ڈنک میں ایک ڈکیتی کے دوران ایک خاتون کی ہلاکت اور ان کی چار سالہ بیٹی کے زخمی ہونے کے بعد صوبے بھر میں مظاہرے جاری ہیں جن میں جرائم پیشہ گروہوں اور ان کو حاصل سیاسی پشت پناہی کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔

بلوچستان کے کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے (جاوید بلوچ)

بلوچستان کے علاقے ڈنک میں گذشتہ ماہ ایک ڈکیتی کے دوران ایک خاتون کی ہلاکت اور ان کی چار سالہ بیٹی کے زخمی ہونے کے بعد صوبے بھر میں مظاہرے جاری ہیں جن میں جرائم پیشہ گروہوں اور ان کو حاصل سیاسی پشت پناہی کی سخت مذمت کی جارہی ہے اور متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 

مئی کی ایک گرم رات صبح تین بجے چند افراد بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے آٹھ کلومیٹر دور ڈنک کے علاقے میں ایک مکان میں گھس گئے اور اسلحہ کے زور پر نقدی موبائل اور سونے کے زیورات دینے کا مطالبہ کیا۔ جب گھر کی خاتون ملک ناز نے مزاحمت کی تو ڈاکووں نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک اور ان کی بیٹی برمش زخمی ہوگئیں۔

ہلاک ہونے والی ملک ناز کے قریبی رشتہ دار رحمت بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چوری کے بعد ایک ملزم الطاف راجہ سامان جمع کرکے باہر نکل رہا تھا جسے محلہ والوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ رحمت بلوچ کے بقول ان کے علاقے میں چوری کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن کسی خاتون کو ہلاک کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔  

رحمت بلوچ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ الطاف کی نشاندہی پر مزید دو افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔  

دوسری جانب علاقے کے رہائشی طالب علم شہریار بلوچ کے مطابق گرفتار افراد کی علاقے میں شہرت اچھی نہیں ہے اور لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ ان کو درپردہ قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ چوری کی وارداتیں کرتے ہیں۔  

شہریار کے بقول یہ اپنی نوعیت کا الگ واقعہ تھا جس نے علاقے کے لوگوں کو مشتعل کر دیا اور مکینوں نے اس پر احتجاج بھی کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی کی 26 تاریخ کو پیش آنے والے اس واقعے سے نہ صرف علاقے میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی بلکہ بلوچستان بھر میں سیاسی جماعتوںمنتقل اور سول سوسائٹی نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ سوشل میڈیا پر جسٹس فار برمش نام کے ٹرینڈ بھی چلے۔ 

رحمت بلوچ کے مطابق برمش کے والد مسقط میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کے خاندان کی کسی سے دشمنی نہیں۔

رحمت بلوچ کا کہنا ہے کہ برمش کی صحت بہتر ہے اور اسے اب انہیں کے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے حکام سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ 

مظاہروں کا سلسلہ

ہلاک خاتون اور ان کی زخمی بیٹی برمش کو انصاف دلانے کے لیے کوئٹہ، خاران، وڈھ اور تربت سمیت گوادر میں بھی سیاسی جماعتوں نے ریلیاں نکالیں اور ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ 

خاران میں سول سوسائٹی کے زیر اہتمام ریلی نکالی گئی جس میں خواتین سمیت بچوں نے بھی شرکت جنہوں سانحہ کے حوالے سے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین نے کہا کہ سانحہ ڈنک نے بلوچستان بھر کو ظلم اور زیادتیوں کے خلاف متحرک کردیا ہے۔ 

جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی نائب امیر اور کیچ کے ضلعی امیر مولانا خالد ولید سیفی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈنک واقعے کے خلاف روایتی مذمت کافی نہیں منظم عوامی تحریک شروع کی جائے۔ 

خالد ولید سیفی نے کہا کہ ڈنک واقعہ براہ راست بلوچ چادر اور چاردیواری پر حملہ ہے اور شہر کے امن کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے۔  

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے سانحہ ڈنک کو معمول کی مجرمانہ واردات نہیں  بلکہ قومی غیرت پر حملہ قرار دیا۔ 

دو جون کو ایس ایس پی نجیب پندرانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں جو بھی ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ 

نجیب پندرانی کے مطابق مدعی نے دو افراد کو نامزد کیا تھا لیکن پولیس نے تفتیش کی تو ایک سیف نامی شخص کا بھی پتہ چلا جس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو نے بھی 31 مئی کو تربت کا دورہ کیا تھا اور متاثرین سے تعزیت کی۔ جس کے بعد ضیا لانگو نے میڈیا کو  بتایا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اور ملزمان کا تعلق جس سے بھی ہو کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ 

ضیا لانگو نے مزید کہا کہ واردات میں ملزمان کی فائرنگ سے ہلاک خاتون کو سرکاری طور پر شہید قرا ردیا گیا ہے۔ 

سیاسی پش پناہی کے الزامات

اس واقعہ میں ملوث مجرموں پر الزام ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے مسلح لوگ ہیں جنہیں مقامی ڈیتھ سکواڈ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ اداروں کے لیے مخبری کرتے ہیں اور سرکاری سطح پر مختلف ایام کے لیے ریلیوں کی قیادت کرتے ہیں۔ تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے ان مجرموں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ قانون کے مطابق انہیں سزائیں دی جائیں گی۔

اس واقعہ کے بعد بلوچستان کے مختلف شہروں سول سوسائٹی، طلبہ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں  احتجاج کر رہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں بلوچ خواتین بھی شرکت کررہی ہیں۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں اور شورش سے سب سے زیادہ متاثر مکران میں کئی برس بعد اتنی بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کے لیے باہر نکل رہے ہیں جو کبھی علیحدگی پسند تنظیموں اور لاپتہ افراد کے حق میں اور مسخ شدہ لاشوں کے خلاف نکلتے تھے۔

ڈنک واقعے کے بعد اب مظاہرین کھل کر ڈیتھ سکواڈز کا نام لے رہے ہیں اور مختلف مسلح گرہوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہیں مظاہرین کے بقول ریاستی سرپرستی میں کھلی چھوٹ حاصل ہے اور اغواہ برائے تاوان، منشیات، مذہبی انتہا پسندی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

احتجاج کا آغاز 30 مئی گوادر سے ہوا جہاں مقررین نے بلوچستان میں بدامنی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث افراد کا ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا۔

گوادر کے بعد تربت، پنجگور، دشت، بلیدہ، خضدار، واشک، خاران اور جمعرات کے شام صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور جرائم پیشہ افراد کو ریاستی پشت پناہی بند کی جائے۔

۔۔۔۔۔

اضافی رپورٹنگ: جاوید بلوچ

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان