کاون آزاد: 'غیر ملکی جانوروں کو چڑیا گھر میں رکھنا غلط اقدام'

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے چڑیا گھر میں موجود تنہائی کے شکار ہاتھی کاون کو آزاد کرنے کے اعلان پر اس کی آزادی کے لیے مہم چلانے والے افراد نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی عدالت کی جانب سے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود تنہائی کے شکار ہاتھی کاون کو آزاد کرنے کے اعلان پر امریکی گلوکارہ چیر سمیت پانچ سال سے اس ہاتھی کی آزادی کے مہم چلانے والے افراد نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

جمعرات کو چیر نے اپنی ٹویٹ میں کہا: 'ہم نے سنا ہے کہ پاکستان کی ہائی کورٹ کی جانب سے کاون کو آزاد کر دیا گیا ہے۔ یہ میری زندگی کے عظیم ترین لمحات ہیں۔'

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود کاون کے علاج اور زنجیروں میں جکڑے جانے کے معاملے میں پر کئی سال پہلے سامنے آنے والی عالمی سطح پر تشویش کے بعد دو لاکھ سے زائد افراد نے اس مہم کے دوران دستخط کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وائلڈ لائف حکام کو حکم جاری کیا تھا کہ وہ اس معاملے میں سری لنکا سے مشاورت کریں جہاں سے کاون کو لایا گیا تھا تاکہ 30 دن کے اندر اس کے لیے مناسب جگہ تلاش کی جا سکے۔

عدالت نے اپنے حکم میں باقی جانوروں جن میں بھورا ریچھ، شیر اور پرندوں کو بھی عارضی طور پر منتقل کرکے چڑیا گھر کو عالمی معیار کے مطابق تیار کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چڑیا گھر کے حکام ماضی میں اس بات کی تردید کرتے رہے ہیں کہ کاون کو زنجیروں میں جکڑ کے رکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق 2012 میں کاون کی ساتھی کی ہلاکت کے بعد سے وہ تنہائی کا شکار ہے اور اسے نئے ساتھی کی ضرورت ہے۔ لیکن ماہرین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جگہ کو تبدیل کیے بغیر کاون کا مستقبل کچھ زیادہ بہتر نہیں دکھائی دیتا۔

اسلام آباد میں وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین انیس الرحمٰن کے مطابق پاکستان میں پانچ ہاتھی ہیں، جن میں سے ایک اسلام آباد میں جبکہ چار کراچی میں ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ عدالت کی جانب سے انہیں بین الاقوامی چڑیا گھروں سے معاونت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جن کے مشوروں پر عمل کرنے کے وہ پابند ہوں گے، کیوںکہ ان کے پاس ہاتھیوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مقامی جانوروں کو تو چڑیا گھر میں رکھا جاسکتا ہے لیکن بڑے اور غیر ملکی جانوروں کو چڑیا گھر میں قید کرنا ایک غلط اقدام ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف کے مطابق ایشیائی ہاتھی عمومی طور پر گرم مرطوب علاقوں اور جنگلات میں ہزاروں کلومیٹر تک سفر کر لیتے ہیں لیکن اس کے برعکس کاون زیادہ سے زیادہ 100 قدم چل پاتا تھا اور اسے بہت کم جگہ پر سایہ فراہم کیا گیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق کاون کو 1985 میں سری لنکا سے لایا گیا تھا جبکہ 2002 میں بھی اسے چڑیا گھر کے حکام کی جانب سے پر تشدد رجحان کے باعث مختصر دورانیے کے لیے زنجیروں میں جکڑا گیا تھا لیکن ایک سال بعد اس صورت حال پر سامنے آنے والے ردعمل کے بعد اسے آزاد کر دیا گیا تھا۔

کاون کی ساتھی جس کا نام 'سہیلی' تھا کو 1990 میں سری لنکا سے لایا گیا تھا، جس کا 2012 میں انتقال ہو گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا