سنتھیا اور ان کے الزام

اگر ہمارے ادارے سنتھیا صاحبہ اور ان کی پاکستان میں موجودگی اور اثر رسوخ کے بارے معلومات فراہم کر پائیں تو آسانی سے معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔

(سوشل میڈیا)

پراسرار امریکی خاتون سنتھیا رچی پیپلز پارٹی کے لیے سنکھیا سے کم ثابت نہیں ہو رہیں ہیں۔ کافی عرصے سے پارٹی کا ’توا‘ لگا رہی تھیں مگر ان کا حالیہ الزام نہایت سنجیدہ اور سیاسی طور پر تباہ کن نوعیت کا ہے۔

سابق وزیر داخلہ اور موجودہ سینٹر رحمان ملک پر ریپ اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر شہاب الدین پر دست درازی کے الزامات دھر دیے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق ریپ مشروب پلا کر بےہوش کر کے کیا گیا جب وہ ویزے کے لیے رحمان ملک کے گھر گئیں۔ دست درازی کا مبینہ واقعہ ایوان صدر میں پیش آیا جہاں بقول ان کے یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔

یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی دست درازی کا درجہ کیا تھا۔ ظاہر ہے اس الزام کے بعد مکمل تحقیقات کا عمل شروع ہو جانا چاہیے۔ اتنے اہم عہدوں پر فائز سینیئر سیاست دانوں پر ایک غیرملکی خاتون کی طرف سے ایسے گھناؤنے الزامات کو غیرسنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اگرچہ یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک نے اس تمام معاملے کی سختی سے تردید کر دی ہے لیکن یہ قصہ اب ایسے ختم نہیں ہو گا۔

اس تنازعے کا آغاز دھماکہ خیز ہے اور جس مصمم ارادے کے ساتھ سنتھیا نے ویڈیوز جاری کی ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ چپ نہیں بیٹھیں گی۔ ویسے بھی ان کی طرف سے بہت سی معلومات مطلوب ہیں جن کے بغیر ان کے الزامات میں خالی جگہیں پر نہیں ہو سکتیں۔ مثلا ان کو بتانا چاہیے کہ ان جیسی دبنگ خاتون تقریبا دس سال خاموش کیوں رہیں؟ کیا رحمان ملک بطور وزیر داخلہ اتنے طاقتور تھے کہ اس قبیح جرم کے مبینہ ارتکاب کے بعد وہ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کو بھی منہ بند کرنے پر مجبور کر پائے؟ اور پھر یہ یاد رہے کہ یہ ہیلری کلنٹن کا دور تھا جو خود اس طرح کے معاملات کو قطعی طور پر برداشت کرنے کے حق میں نہ تھیں۔

اگر امریکی سفارت خانے کے پاس معلومات تھیں تو کیا انہوں نے وزارت خارجہ کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا؟ ویسے امریکی سفارت کاروں کو ہمارے ہاں جو غیررسمی مراعات مہیا ہیں ان کے تحت تو وہ اس الزام کو سیدھا فوجی سربراہ کے پاس بھی پیش کر سکتے تھے۔ کیا یہ ہوا اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

رحمان ملک کے ساتھ نشست تو ویزے کے لیے تھی لیکن مخدوم شہاب الدین اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کا جواز کیا تھا؟ اس کی وضاحت ویسے یوسف رضا گیلانی کو بھی کرنی چاہیے کہ اگرچہ وہ کافی ’ویلے‘ تھے مگر کیا اتنے ’ویلے‘ تھے کہ اس طرح کی شخصیات کی ان تک رسائی تھی؟ سنتھیا بی بی کو اپنے الزامات کے بعد انصاف تلاش و  حاصل کرنے کا مکمل حق ہے اور اس حق کو پانے کے لیے ان کو جو بھی مدد درکار ہے وہ مہیا ہونی چاہیے مگر اسی طرح جس پر الزام لگائے گئے ہیں ان کو بھی اپنی عزت پر لگے بٹے کا جواب دینے اور الزامات غلط ثابت کرنے کی صورت میں مکمل کارروائی سے نہیں رکنا چاہیے۔

اس دوران اگر ہمارے ادارے سنتھیا صاحبہ اور ان کی پاکستان میں موجودگی اور اثر رسوخ کے بارے معلومات فراہم کر پائیں تو آسانی سے معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں مقیم یہ امریکی شہری جو لاہور میں چھوٹی موٹی این جی اوز کے ساتھ منسلک ہو کر ان کو بڑے بڑے پراجیکٹ دلوانے کی اہلیت رکھتی تھیں اتنی بااثر ہو گئیں کہ ہر بڑے ملکی معاملے میں اپنی آواز شامل کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں؟ ان کی معلومات تک رسائی حیران کن ہے۔ سیاست دانوں کی نجی محفلوں کی تصاویر سے لے کر پاکستان کے دفاعی  معاملات پر ایک خاتون لارنس آف عریبیہ بن جانے والی یہ محترمہ پاکستان میں کیا کاروبار کرتی ہیں؟ اور پھر ان کی سیاسی لڑائیاں۔

اگرچہ انہوں نے اپنی ویڈیوز پر پی جی ریٹنگ کا اعلان کر کے ہمارے بچوں کے اخلاق کا تحفظ کر لیا مگر اپنے ٹویٹس پر ایسے کسی انتباہ کا بندوبست نہیں کیا جن کے ذریعے وہ بلاول بھٹو زرداری پر مردوں سے دوستی اور ان کی شہید والدہ پر نامحرموں سے تعلقات کا الزام لگا کر خوشی سے تشہر کرتی رہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چونکہ انہوں نے اپنا معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی عوام کے سامنے رکھا ہے تو ظاہرہے ان سوالوں کے جواب حاصل کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کیا شواہد سامنے لائیں گی۔ کیوں کہ اب یہ اخلاقی نہیں بلکہ قانونی جنگ ہے جس میں ثبوت کی فراہمی الزام لگانے والے اور تحقیق میں مدد گار شاہدین کا کام ہے۔ شواہد کی بحث اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ہم نے بالخصوص پچھلے چند سالوں میں اعلی عہدیداران کی ذاتی زندگیوں کو کئی مرتبہ تختہ مشق الزام بنتے دیکھا ہے۔

چھپ کر کی ہوئی شادیوں کا سامنے آجانا تو ہر روز کا قصہ ہے مگر اس سے ہٹ کر شرعی تقاضوں کو پورا کیے بغیر تعلقات کی استواری بھی گاہے بگاہے خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے۔ جنسی ہراسانی، زیادتی، تشدد، دباؤ اور دھمکیوں کے قصے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان پر پورے شدو مد کے ساتھ الزامات لگائے اور بارہا کہا کہ ان کے پاس تمام بیانات کو ثابت کرنے کا مواد بھی موجود ہے۔ ماروی میمن نے اسحاق ڈار پر تواتر سے سکینڈلز  کی گولیاں برسائیں۔ عائشہ احد نے حمزہ شہباز کو حدف بنایا۔ ٹک ٹاک والی لڑکیوں نے اپنے مخصوص انداز میں راز افشاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔ مگر پھر کچھ عرصے بعد پیالی میں مچنے والے طوفان کی طرح سب کچھ خاموشی پر اختتام پزیر ہوا۔

ہمیں علم نہیں ہے کہ سنتھیا کی بوچھاڑ سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ کیا وہی ہو گا جو پہلے ہوتا چلا آیا ہے یعنی کچھ نہیں، یا اس سے کچھ مختلف۔ مگر فی الحال سنتھیا بی بی نے ہر طرف یہ تھر تھری ڈال دی ہے کہ اگر وہ ویڈیوز کے ذریعے سابق وزرا اور وزیر اعظم پر ایسے خوفناک الزامات کی سنگ بازی کر سکتی ہیں تو کل کلاں وہ خود یا کوئی اور کسی جج، کسی سیاست دان، کسی اور اہم عہدے دار کے خلاف خود سے لکھی ہوئی ایف آئی آر کا آسانی سے اجرا کر کے اس کی عمر بھر کی عزت کو خاک میں ملا سکتا ہے۔

اس زاویے سے دیکھیں تو سنتھیا کی بجائی ہوئی گھنٹی کی آواز صرف پیپلز پارٹی کے چند لیڈران کے لیے نہیں ہے۔ ان الزامات کی گونج دور تلک جا رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ