بلوچستان: سیاست اور جرائم کا اتحاد

بلوچستان کے سیاسی کلچر کو پرتشدد رجحانات اور رویوں سے پاک کرنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ سیاست دانوں اور جرائم پیشہ افراد کا یہ اتحاد ختم ہونا چاہیے۔

خاران، بلوچستان میں برمش کے حق میں مظاہرہ (نصیب ریکی)

چند سال قبل کی بات ہے کہ میرے ایک صحافی دوست عبدالصمد (فرضی نام) خاصے پریشان کوئٹہ میں واقع میرے دفتر پہنچے۔ میں نے پوچھا: ’بھئی خیر تو ہے؟ بڑی چُرت (کوئٹہ کی بولی میں پریشانی کو کہتے ہیں) میں لگ رہے ہو؟‘

اس نے کہا: ’اڑے (بلوچی میں ارے کو کہتے ہیں) کیا بتاؤں۔‘

میں نے استفسار کیا: ’بتاو تو صحیع۔ کیا ہوا ہے؟‘

اس نے جواباً ایک اور سوال داغا۔ ’اچھا یہ بتاؤ تمہارا سی ایم (وزیراعلیٰ) ہاؤس میں کوئی جاننے والا ہے؟‘

یہ بڑا عجیب سوال تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بطور صحافی جب آپ سی ایم ہاؤس آتےجاتے ہیں تو کوئی نا کوئی تو جاننے والا ہوگا لہذا میں نے اثبات یا نفی میں جواب دینے کی بجائے عام سا جواب دیا: ’بھائی ڈیپنڈ کرتا ہے کہ آپ  کو سی ایم ہاؤس میں کس سے اور کیا کام ہے۔‘

وہ بولا: ’یارمعاملہ تھوڑا سیریس ہے لیکن وعدہ کرو کہ ہنسو گے نہیں؟‘

میں نے کہا کہ ’اگر معاملہ سیریس ہے تو پھر میں کیوں کر ہنسوں گا؟‘

اس نے بتایا: ’مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ایک دوست ہے اور اس کی گاڑی چوری ہوگئی ہے۔‘’

میں نے فوری طور پر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’اچھا تو تمہارا دوست اتنا اہم ہے کہ ایک گاڑی کے لیے تم چاہتے ہو کہ وزیر اعلی ایکشن لیں؟‘

’نہیں یار! بات یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گاڑی چوری ہوئی ہے لیکن ایک طرح سے چوری ہوئی بھی نہیں ہے۔‘

 میں نے پوچھا: ’کیا مطلب؟‘

اس نے وضاحت کی: ’مطلب یہ کہ میرے دوست کو پتہ ہے کہ گاڑی کس کے پاس ہے اور جو بندہ اسے واپس لا سکتا ہے وہ ہم نے سنا ہے کہ صرف سی ایم کی سنتا ہے۔‘

 میں نے کہا: ’یہ تو واقعی بڑا گھمبیر معاملہ ہے۔‘

اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’ہاں اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ گاڑی کی برآمدی کے لیے وزیر اعلیٰ سے گزارش کرنے کا پروٹوکول کیا ہے؟ انہیں کیسے بتایا جائے کہ سر جو لوگ گاڑی لے گئے ہیں وہ صرف اور صرف ان ہی کی بات مانیں گے۔ بات بھی پہنچ جائے اور سی ایم مائینڈ بھی نا کریں۔‘

میں نے انکساری سے کہا: ’آئی ایم سوری۔‘

……………….

بلوچستان میں صحافی دو ہفتوں سے بڑے تذبذب کا شکار ہیں۔ تربت میں ڈاکہ زنی کے ایک واقعے میں ایک خاتون ہلاک اور اس کی ننھی بیٹی برمش شدید زخمی ہوئیں۔اس واقعے کے خلاف صوبے بھراور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ صحافی اس لیے حیران و پریشان ہیں کہ جس سے بھی پوچھتے ہیں کہ اس واقعے کے پیچھے کون ہے تو سب کا جواب ایک ہی ہوتا ہے: ’وہ تو سب کو پتہ ہے۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ اب فیصلہ یہ نہیں ہو پا رہا کہ ان دو میں سے کون سی بات زیادہ شرمناک ہے۔ یہ کہ ایک نہتی عورت کو چوروں نے اس کے گھر میں گھس کا جان سے مار دیا یا یہ کہ صحافی فون اٹھا کر یکے بعد دیگرے صوبائی وزیروں اور اراکین صوبائی اسمبلی سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ سر اس واقعے کے حوالے سے آپ کا نام سننے میں آرہا ہے۔ کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ان عناصر کو واقعی آپ کی پشت پناہی حاصل تھی تو کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا مبینہ قاتل واقعی آپ کی پارٹی کا ممبر ہے؟ کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس شخص کی آپ کی ساتھ تصویر گردش کر رہی ہیں۔

سیاست دانوں کا تو پہلے سے تیار شدہ جواب موجود ہوتا ہے کہ یہ تو میرے مخالفین کی سازش ہے۔ لیکن جب سیاست دان فاتحہ خوانی پہ پہنچ جائیں، واقعے کی مذمت کریں اور متاثرہ خاندان کو یہ یقین دہانی کرائیں کہ ایسے واقعات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے تو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔

……………….

پاکستان کو بلوچستان میں جاری علحیدگی پسند تحریک سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس شورش کو کچلنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی سے ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات پر جو لوگ صوبے کے حوالے سے فیصلے اور منصوبہ بندی کرتے ہیں انہوں نے کئی سالوں سے ایک بڑی تباہ کن پالیسی متعارف کی ہے جس نے ناصرف بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دیا ہے بلکہ عوام کے پیمانہ صبر کو بھی لبریز کر دیا ہے۔ وہ پالیسی کچھ یوں ہے کہ صوبے میں جرائم پیشہ افراد کو پاکستان یا اسلام سے محبت کے نام پر اکھٹا کیا جاتا ہے، انہیں چند غنڈے فراہم کیے جاتے ہیں اور بلوچ قوم پرستوں یا ان کے ہمدردوں کو سبق سیکھانے کی ذمہ داری سونپنی جاتی ہے۔

اس پالیسی کے تحت کوالیفیکیشن کا میعار خاصا سادہ اور واضح ہے۔ جو شخض انڈیا کے جھنڈے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرے اسے ناصرف گلے لگایا جاتا ہے بلکہ انہیں ایک طرح سے یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ جب تک وہ قوم پرستوں کے خلاف معاون بنیں گے تب تک انہیں ملک کا کوئی قانون ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

 اس پالیسی نے ناصرف بلوچستان کی سیاست کو جرم آلود کر دیا ہے بلکہ تشدد اور جرائم کو ایک طرح سے مراعات کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس (مبینہ طور پر حکومت کی جانب سے فراہم کردہ) غنڈے ہیں (جن کو مقامی لوگ ڈیتھ سکواڈ کہتے ہیں) تو آپ علاقے میں سیاست کرسکتے ہیں اور اگر آپ کے پاس یہ سب نہیں ہے تو آپ چار دن بھی سیاست میں چل نہیں سکتے۔ چنانچہ سیاست دان جن تک عوام کو دسترس ہونی چایئے تھی اب ذاتی محافظوں کی ناختم ہونے والی فوج کے پہرے میں ہوتے ہیں۔ جو نوجوان سیاست میں آنا چاہتے ہیں یہ ان کے لیے کامیاب ہونے کا تباہ کن نسخہ اور حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔

یہ بڑا تشویش ناک معاملہ ہے کیونکہ اس پالیسی کو کئی سالوں سے پروان چڑھایا گیا ہے اور اب اسے ریورس کرنا ناممکن نہیں تو خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پالیسی قانون کی حکمرانی کے فلسفے سے متصادم ہے۔ جس طرح اگر سیاستدانوں کے بچے پرائیوٹ سکولوں میں پڑھیں گے تو ان کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح اگر بلوچستان میں دانستہ طور پرذاتی ملیشا یا ڈیتھ سکواڈ  کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو پھر صوبے میں پولیس اور لیویز فورس کی کیا ضرورت ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لیے لازمی ہے کہ صوبے میں ہتھیار محض قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہوں (اور وہ بھی اس امید سے کہ وہ اپنا یہ قانونی اختیار شہریوں کے خلاف ناجائز طور پر استعمال نہیں کریں گے)۔

بلوچستان میں جو مظاہرے بظاہر برمش کے لیے ہو رہے ہیں وہ دراصل اسی پالیسی کے خلاف ہیں جس پر بلوچستان کے لوگ کئی سالوں سے بیزار ہیں لیکن خوف کے باعث اپنی برہمی کا اظہار تک نہیں کرسکے ہیں۔ برمش پر ہونے والا حملہ ایک طرح سے اس تمام معاملے میں  تبدیلی کا وقت تھا لیکن اگر معاملہ کی مزید تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ ایک عرصے سے بلوچستان میں جرائم پیشہ عناصر اور رویے کو دانستہ طور پر پروموٹ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی  زندگی مشکل ہوگئی ہے۔

بلوچستان کے سیاسی کلچر کو پرتشدد رجحانات اور رویوں سے پاک کرنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ سیاست دانوں اور جرائم پیشہ افراد کا یہ اتحاد ختم ہونا چاہیے۔

کسی بھی ملک میں قانون کی بالادستی اس وقت ہوگی جب سب کے لیے ایک ہی قانون ہوگا۔ بدقستمی سے بلوچستان میں اسٹبلشمنٹ نواز سیاست دان بتدریج قانون سے بالاتر ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ انہیں اوپر سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا کیونکہ وہ قوم پرستوں کے خلاف جنگ میں حکومت کے ’اثاثہ‘ ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان عناصر نے اپنی جنگ کا رخ  دراصل بلوچستان کی عوام  کی طرف موڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں ننھی برمش ہسپتال اور ان کی والدہ اپنے رب کے پاس پہنچ گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ