خطیب حسین نے اپنے استاد کا قتل کیوں کیا؟

خطیب حسین کو جاننے والوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم خاموش طبیعت اور جذباتی ہے لیکن گزشتہ چار پانچ ماہ سے خاموش اور الگ رہنے لگا تھا۔

صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن (ایس ای) کالج کے ایک طالب علم نے 20 مارچ 2019 کی صبح اپنے ہی ایک استاد کو کالج پہنچنے پر گھات لگا کر خنجر کے پے در پے وار کرکے قتل کر دیا۔ ملزم خطیب حسین کا الزام ہے کہ شعبہ انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر خالد حمید ’اسلام مخالف سوچ‘ رکھتے تھے۔ یہ اس شدت پسندی سے متاثرہ جنوبی پنجاب میں کوئی اپنی نوعیت کا پہلے واقع نہیں لیکن اس نے سب کو اس سوچ میں ڈال دیا کہ خطیب نے آخر ایسا انتہائی اقدام کیوں اٹھایا؟ اس کے تانے بانے کہاں تک جاتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق بی ایس پانچویں سمسٹرکا طالب علم خطیب حسین سخت گیر اسلامی تنظیم تحریک لبیک کا پیرو کار تھا۔ ایس ای کالج کے شعبہ انگریزی کے طالب علم وجیہ الحسن کے مطابق یزمان کا رہائشی خطیب حسین مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اور پچھلے چھ ماہ سے اس کا انداز تھوڑا مختلف ہوگیا تھا۔ ’وہ مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا، واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مذاق اور گپ شپ کو بھی حرام قرار دیتا تھا۔ ایک بار تو مولانا خادم حسین کا فتویٰ پیش کیا کہ ہنسنا بھی حرام ہے۔‘

اس واردات کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے اقدام نے جہاں اکثریت کو ششدر کیا وہیں بعض لوگ اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ پنجابی زبان میں ایک پوسٹر میں خطیب کی تصویر کے ساتھ خادم رضوی کا عکس بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نوجوان کے اقدام کے حق میں مزید تحریریں بھی لکھی اور شیئر کی جا رہی ہیں۔ تو پھر کیسے پڑھائی میں ایک اچھا طالب علم جو اکثر کلاس میں خاموش رہتا تھا اور جس نے مقتول پروفیسر سے پڑھتے ہوئے ابھی اسے دو ماہ ہی مکمل کیے تھے قاتل بن گیا؟

اس حوالے سے ماہر قانون اور سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل مرزا عزیز اکبر بیگ نے کہا کہ ’ایک جانب حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے، مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی ادارے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیاں بھی کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے شدت پسندی کے رجحانات کے باعث روشن خیالات کے حامل اساتذہ، طلبہ اور شہریوں کا من پسند تقریبات منعقد کرانا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے، اس معاملے پرانتظامیہ اور حکومت بھی خاموشی اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔‘

ملزم خطیب حسین کی کلاس کے حمزہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم خاموش طبیعت اور جذباتی ہے لیکن گزشتہ چار پانچ ماہ سے خاموش خاموش اور الگ الگ رہنے لگا تھا۔ ’اپنےسوشل میڈیا پیج پر خادم رضوی کی گرفتاری کے خلاف وہ تحریریں بھی لکھتا رہا اور ان کے بیانات کی تشہیر بھی کرتا تھا۔ ہنسی مذاق کرنے والوں سے لڑ پڑتا تھا۔

خطیب کے والد موٹر سائیکل مکینک ہیں اور اپنی دوکان کا نام بھی اپنے بیٹے کے نام سے رکھا ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی صحافی صحروش افتخار نے بتایا کہ ملزم یزمان کے ایک پسماندہ گاوں سے تعلق رکھتا ہے اور بچپن میں وہاں کے مقامی مدرسہ میں زیر تعلیم بھی رہا۔ جب وہ کوریج کے لیے ان کے گاوں گئے تو اس کے اہل خانہ گھر کو تالا لگا کر کہیں گئے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق بہاولپور میں تحریک لبیک کے کارکن خطیب حسین کے جرم کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایس ای کالج کے پروفیسر عاصم ثقلین درانی نے نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’خطیب حسین انتہائی سنجیدہ طالب علم ہے، اسے کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا گیا، حتیٰ کہ وہ سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ پیغام بھیجنے والوں سے بھی لڑ پڑتا ہے۔‘

 ثقلین درانی کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں بلکہ کئی روز سے خطیب حسین اور اس کے دوست کالج میں تقریب کے انعقاد پر ایک مخالف مہم چلا رہے تھے، اس حوالے سے پمفلٹس بھی دیکھنے میں آئے اور ان کی جانب سے ڈی سی او بہاولپور کو تقریب منسوخ کرانے کی درخواست بھی دی گئی تھی، یہ لاوا کئی روز تک پکتا رہا اور بدھ کی صبحپروفیسر خالد حمید کے دفتر میں قاتلانہ حملہ کی صورت میں پھٹ پڑا۔‘

پولیس تھانہ سول لائنز کے ایس ایچ او فرحان احمد کے مطابق ملزم کو مقامی عدالت نے 15 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔ ملزم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جبکہ آلہ قتل پہلے ہی برآمد کرلیا گیا تھا۔ فرحان احمد نے بتایا کہ اب تک تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ ملزم مذہبی انتہا پسندی کی سوچ رکھتا ہے اور تحریک لبیک کی قیادت سے متاثر نظر آتا ہے۔ ’وہ خادم رضوی کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے لیکن مذید تفتیش جاری ہے اور نفسیاتی ماہرین کی مدد سے بھی ملزم کی تفتیش کی جائے گی۔‘

ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں مزید بتایا کہ متنازعہ پارٹی کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) بہاولپور کو ایک درخواست بھی دی گئی تھی کہ اس کو ’بے حیائی‘ قرار دے کر روکا جائے۔ بی ایس کے طالب علموں کی جانب سے لکھی گئی یہ درخواست سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے، جس میں کالج میں جاری سالانہ فنکشن کی ریہرسل کو ’غیر اسلامی‘ اور ’یورپ کا کلچر‘ قرار دے کر رکوانے کی استدعا کی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق جنوبی پنجاب پاکستان میں گذشتہ دو دھائیوں سے شدت پسند تنظیموں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ تحریک لبیک نے بھی گذشتہ برس عام انتخابات سے قبل اور بعد میں اس خطے پر خصوصی توجہ دی۔ اس سخت گیر جماعت کی قیادت آج کل گرفتار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خطے کو اب شدت پسندی اور انتہا پسند سوچ سے چھٹکارا دلانے کے لیے ناصرف ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدامات بلکہ نوجوان نسل کو بچانے کی خاطر طویل مدتی منصوبے بنانے ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل