نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل کی ایک وجہ فضائی آلودگی

کنگز کالج لندن کی حالیہ تحقیق میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونے کے امکانات دو گنا زائد ہوتے ہیں۔

محققین کے مطابق  شہری علاقوں میں رہنے والے نوعمروں میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونے کے امکانات دو گنا زائد ہوتے ہیں۔ فائل تصویر: اے ایف پی

ایک حالیہ تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ وہ نوجوان جو زیادہ فضائی آلودگی والے شہروں میں رہتے ہیں، وہ مختلف آوازوں کے سنائی دینے اور  وسوسوں سمیت دیگر نفسیاتی تجربات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

کنگز کالج لندن کے محققین کے مطابق اگرچہ وہ اس بات کو ثابت نہیں کرسکتے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی نفسیاتی مسائل سامنے آئے، تاہم انہوں نے اس سلسلے میں جرائم، محرومیوں، وراثتی ذہنی بیماریوں، سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کو بھی ممکنہ وجوہات کے طور پر پایا۔

بچپن اور بلوغت کے زمانے میں دماغی صحت کو متاثر کرنے میں ایک اہم وجہ فضائی آلودگی بھی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے دھاتوں کے بھاری ذرات انسانی جسم خصوصاً پھیپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سوزش جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

محققین نے متنبہ کیا کہ اس تعلق کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم وہ اس جائزے میں اس امر کو مسترد نہیں کرسکے کہ ٹریفک کا شور بھی نیند کے مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ   اسٹریس کا باعث بنتا ہے۔

یہ بات تو مسلمہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے لوگوں میں نفسیاتی مسائل زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اس کی وجوہات پر زیادہ غور نہیں کیا گیا تھا۔

جے اے ایم اے (JAMA) سائیکیاٹری میں شائع ہونے والی کنگز کالج لندن کی حالیہ تحقیق میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ شہری علاقوں میں رہنے والے نوعمروں میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونے کے امکانات دو گنا زائد ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، وہ نوجوان جنہیں نائٹروجن آکسائیڈ کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں دیگر نوجوانوں کے مقابلے میں نفسیاتی مسائل کے تجربات 72 فیصد تک تھے۔

نفسیاتی مسائل، بچپن کے مقابلے میں بلوغت کے اوائل میں زیادہ سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ یہ بہت حد تک شیزوفرینیا سے ملتے جلتے ہیں، تاہم ان تجربات کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ کسی انسان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

اس فرق کو جانچنے کے لیے محققین نے برطانیہ میں دو ہزار 232 نوجوانوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور یہ بات سامنے آئی کہ 12 سے 18 سال کی عمر کے تین فیصد شرکا میں کم از کم ایک نفسیاتی تجربہ ہوا۔

محققین نے اُن علاقوں میں آلودگی پھیلانے والے اجزا کا موازنہ کیا، جہاں یہ نوجوان رہائش پذیر تھے، جہاں ان کا اسکول تھا یا جہاں وہ اپنا فارغ وقت گزارا کرتے تھے۔ اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ وہ نوجوان جو زیادہ آلودہ ہوا میں سانس لے رہے تھے، ان میں نفسیاتی مسائل کی شرح زیادہ تھی۔

نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر نائٹروجن آکسائیڈز جیسے فضا کو آلودہ کرنے والے عناصر گاڑیوں کے دھویں، پاور پلانٹس اور دیگر قسم کے دھویں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل  کے 60 فیصد مسائل کے پیچھے نائٹروجن آکسائیڈ کا ہی ہاتھ تھا، تاہم ڈاکٹر نیو بری اور ان کے ساتھیوں نے اعدادوشمار کی مدد سے دیگر پہلوؤں کو بھی اس میں شامل کیا۔

مصنف ڈاکٹر ہیلن فشر نے بتایا کہ یہ تحقیق ابھی صرف ’ابتدائی اشارے‘ فراہم کرتی ہے  اور اس حوالے سے مزید پہلوؤں کی بھی جانچ ضروری ہے۔

روئل کالج آف سائیکاٹرسٹس سے منسلک ڈاکٹر ڈینیئل موگھن کے مطابق اگرچہ اس تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ فضائی آلودگی سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں، تاہم اس کے نتائج اس لحاظ سے خطرناک ہیں کہ نفسیاتی مسائل شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں میں زیادہ سامنے آتے ہیں، جس کا تعلق فضائی آلودگی سے ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا ہمیں اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ فضائی آلودگی نوجوانوں اور بالغ افراد کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل