پشاور بی آرٹی: منصوبے میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے لیے اقدامات موجود نہیں

منصوبے پر بننے والی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق پشاور کی سڑکوں پر بی آرٹی سٹیشنوں کے گرد سڑک میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔

پشاور میں  بی آر ٹی سٹیشن۔تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

پشاور میں بس ریپیڈ ٹرانزٹ (بی آرٹی) منصوبے پر وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کے حکم پر بننے والی تحقیقاتی ٹیم نے بتایا ہے کہ اس منصوبے سے پشاور میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے جس کے حل کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

بی آرٹی میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لیے وزیر اعلٰی نے صوبائی انسپکشن ٹیم کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ ٹیم کی رپورٹ میں بی آرٹی کے حوالے سے دیگر مسائل جیسا کے ڈیزائن میں خرابی، درست پلاننگ نہ کرنا سمیت شہر میں ٹریفک کے مسئلے پر بھی بات کی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منصوبے کی وجہ سے پشاور کی سڑکوں پر بی آرٹی سٹیشنوں کے گرد ٹریفک کے لیے سڑک میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ مستقبل میں بی آرٹی کی وجہ سے پشاور کی سڑکوں پر ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر صورتحال اخیتار کر سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بی آرٹی کے لیے پورا کوریڈور بلند (elevated) ہونا چاہیے تھا کیونکہ ابھی جہاں پر سٹیشن بنائے گئے ہیں وہاں سڑک کی لینوں کو کم کیا گیا ہے جس سے ٹریفک کا مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔

کوریڈور کی مخلتف جگہوں پر سڑک تین یا چار لینوں سے کم ہوکر دو لین کی ہوگئی ہے کیونکہ سڑک کا بڑا حصہ بی آرٹی کاریڈور کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

یہ مسئلہ زیادہ تر یونیورسٹی روڈ پر موجود ہے جہاں تہکال، ابدرہ روڈ، یونیورسٹی ٹاون اور بورڈ بازار کے سٹیشن کے ساتھ سڑک تنگ ہوکر رہ گئی ہے اور یہاں روزانہ رش نظر آتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پشاور میں یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے 67 ارب روپے کی لاگت سے بنا رہی ہے۔ اس رقم میں 35 ارب سے زائد ایشیای ترقیاتی بینک بطور قرضہ دے رہا ہے۔

اس منصوبے پر کام کا اغاز اکتوبر 2017 میں کیا گیا اور حکومت نے دعوی کیا تھا کہ اس کو چھ مہینوں میں مکمل کریں گے لیکن یہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔

سینیر سپرنڈنٹ ٹریفک پولیس کاشف ذولفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹریفک کا مسئلہ ضرور موجود ہے اور بی آرٹی کوریڈور اب جب بن گیا ہے تو حکومت کو متبادل روٹس پر غور کرنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ اب چونکہ کوریڈور بن گیا ہے تو اس پر تنقید بے جا ہوگی لیکن متبادل روٹس اور کچھ جگہوں پر سڑک کو چوڑا کرنے سے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

پشاور میں پارکنگ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کے مستقبل میں جو بھی کمرشل عمارت بنتی ہے تو اس کے ساتھ کار پارکنگ ضرور ہونی چاہیے کیونکہ پارکنگ کی وجہ سے بھی ٹریفک کا مسئلہ موجود ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں ٹریفک کے مسئلے پر تحفظات بجا ہیں کیونکہ عوام کو تکلیف ضرور ہے تو انہوں نے کہا: ’ہم نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کچھ جگہوں پر ٹریفک سگنل نصب کرنے کا بتایا ہے کیونکہ ابھی صرف کینٹ کے اندر ٹریفک سگنل موجود ہیں، باقی جی ٹی روڈ پر بھی ضرورت ہے کہ سگنل لگائے جائیں۔‘

تہکال کے علاقے میں کوریڈور کی وجہ سے ٹریفک مسئلے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ حکومت کو چاہیے کہ تاجروں اور دیگر سٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لے کر سڑک کو کشادہ کیا جائے کیونکہ وہاں پر سٹیشنوں کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان