چڑیا گھر میں ہاتھی ہی نہیں، بچوں کو کیا دکھائیں؟

ایڈووکیٹ فواد مغل کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کو چڑیا گھر کے لیے جلد از جلد ہاتھی کی خریداری کا حکم دیا جائے۔

ہتھنی ’سوزی‘  مئی 2017 میں اس دنیا سے چل بسی تھی۔ فائل تصویر: یوٹیوب سکرین گریب

تقریباً دو برس قبل لاہور کے چڑیا گھر میں سوزی نامی ایک ہتھنی ہوا کرتی تھی، جو مئی 2017 میں اس دنیا سے چل بسی۔ اس کے بعد سے اب تک یہ پنجرہ خالی ہے۔

ایڈووکیٹ ہائیکورٹ فواد مغل اب جب بھی اپنے بچوں کو چڑیا گھر کی سیر کو لے کر جاتے ہیں تو وہ ہاتھی دیکھنے کی فرمائش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فواد مغل نے بھی ٹھان لی کہ وہ اپنے اور دوسرے بچوں کے لیے چڑیا گھر میں ہاتھی لانے کی سر توڑ کوشش کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں 26 مارچ 2019 کو ایک درخواست دائر کر دی، جس میں چڑیا گھر میں ہاتھی کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہتھنی ’سوزی‘ کو ہلاک ہوئے تقریباً دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، چڑیا گھر میں دور دراز سے لوگ قدرت کے شاہکار دیکھنے آتے ہیں، لیکن ابھی تک لاہور چڑیا گھر کے لیے نئے ہاتھی کی خریداری نہیں کی گئی۔

ایڈووکیٹ فواد مغل نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ پنجاب حکومت کو لاہور چڑیا گھر کے لیے جلد از جلد ہاتھی کی خریداری کا حکم دیا جائے۔

مذکورہ درخواست پر پیر کے روز لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد امیر بھٹی نے سماعت کی۔

دوران سماعت جب جسٹس امیر بھٹی نے ڈائریکٹر چڑیا گھر سے جواب طلب کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ منسٹری آف کلائمٹ چینج کی ڈیوٹی تھی، انہوں نے ہاتھی خریدنے کے لیے بارکلے کمپنی سے رابطہ کیا جو تین برس سے بلیک لسٹ ہو چکی تھی، یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے ہاتھی نہیں لایا جاسکا۔‘

تاہم ڈائریکٹر چڑیا گھر کے اس جواب سے معزز جج مطمئن نہ ہوسکے اور انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’کیا آپ مذاق کر رہے ہیں؟ یہ کوئی جواب نہیں، اصل وجوہات بتائیں۔‘

سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے ہاتھی کی خریداری میں تاخیر پر ڈائریکٹر چڑیا گھر اور وزارت ماحولیاتی سے 22 اپریل تک تحریری وضاحت طلب کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کردیا۔

سماعت کے بعد ایڈووکیٹ فواد مغل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے بچوں کو سکول میں جانوروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور ہاتھی کا ذکر تو خاص طور پر کیا جاتا ہے، لیکن جب بچے چڑیا گھر جاتے ہیں تو وہاں ہاتھی ہے ہی نہیں، انہیں کیا دکھائیں۔‘

 فواد مغل نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے چڑیا گھر کی انتظامیہ کو بھی ہاتھی کی خریداری کے متعلق ایک قانونی نوٹس جاری کیا تھا جس پر انہیں جواب موصول ہوا کہ ’اس کے لیے منسٹری آف کلائمٹ چینج کا این او سی چاہیے، جس کے لیے متعلقہ ادارے کو ٹینڈر کر دیا گیا ہے اور تقریباً پانچ کروڑ روپے بھی دے دیے گئے ہیں جن میں سے کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر ہاتھی خریدنے والی بارکلے کمپنی کو دے دی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس جواب میں یہ واضح نہیں تھا کہ بارکلے کمپنی بلیک لسٹ ہو چکی ہے، تاہم پیر کے روز ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ یہ کمپنی بلیک لسٹ تھی اور اسے اب دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان