لمز یونیورسٹی کی طالبات نازیبا فیس بک گروپ پر سراپا احتجاج

چھ سو سے زائد اراکان پر مشتمل فیس بک کے خفیہ گروپ پر لمز کی طالبات کے حوالے سے غیر اخلاقی پوسٹس شیئر کی جا رہی تھیں۔

تصویر: فیس بک 

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی طالبات نےپیر کو مبینہ طور پر اپنے ساتھی طالب علموں کی جانب سے بنائے گئے نازیبا فیس بک گروپ کے خلاف شعبہ کمیونکیشن میں احتجاج اور دفتر کے باہر دھرنا دیا۔

طالبات کا الزام ہے کہ یونیورسٹی کے ساتھی طلبا انہیں فیس بک پرنازیبا پیغامات اور تصاویرکے ذریعے ہراساں کرنے کے علاوہ یونیورسٹی میں بھی قابل اعتراض جملے کستے ہیں لیکن شکایات کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔  

کچھ طالبات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ساتھ طلبا نے فیس بک پر’ڈنک پونڑا ایٹ لمز‘ (Dankpuna at Lums) کے نام سے خفیہ گروپ بنا رکھا ہے جس کے 600 سے زائد اراکین میں زیادہ تر لڑکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گروپ میں طالبات سے متعلق نازیبا جملے لکھے جاتے ہیں اور خاص طور پر عورت مارچ کے بارے میں خواتین کے جذبات اور ان کی آزادی سے متعلق تضحیک آمیز مہم چلائی گئی۔ اس کے علاوہ گروپ میں طالبات کے بارے میں توہین آمیز، ناگواراور تعصب پر مشتمل میمز بھی شیئر کیے جاتے رہے ہیں۔  

یہ گروپ اُس وقت منظرعام پر آیا جب کچھ طالبات نے اس تک رسائی حاصل کرلی اور اس پر موجود ناگوار، صنفی تعصب اورعورت دشمن پوسٹوں اور میمز کے سکرین شاٹ لمز کے ڈسکشن فورم فیس بک گروپ پر شئیر کیے، جس کے بعد بڑھتے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے ’ڈنک پونڑا ایٹ لمز‘ کو فوراً بند کردیا گیا۔ 

طالبات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں یونیورسٹی کے شعبہ کمیونکیشن کی سٹوڈنٹس افیئرز کی سربراہ مناہل شیخ کو باقاعدہ درخواست دے کر شکایت کی لیکن کوئی کارروائی نہ ہونے پر انہوں نے احتجاج اور دھرنا دیا۔

’یونیورسٹی انتظامیہ نے اس گروپ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔ انتظامیہ لڑکوں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے الٹا طالبات کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

 طالبات کا مزید کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی تقریبات اور مختلف تعلیمی سرگرمیوں کے دوران بھی انہیں لڑکوں کے غیر سنجیدہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آزاد خیال ماحول فراہم کرنے کے نام پر طالبات کے حق کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔

سٹوڈنٹس افیئرزکی سربراہ مناہل شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبات ان کے دفتر میں اس معاملہ پر بات کرنے آئیں تھیں جو معمول کی بات ہے۔ ان کے مطابق ’ اسے احتجاج یا دھرنے کا رنگ دینا مناسب نہیں۔ ان کی بات سننے کے بعد ماحول کو مزید بہتر بنانے کی یقین دہانی پر وہ خوشگوار موڈ میں یہاں سے چلی گئیں۔‘

شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ محمد احمد نے دعوی کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی نظر میں یہ افواہ ہے اور اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ انہوں نے کہا: ’طلبہ اور طالبات کو برابرحیثیت حاصل ہے۔ جو کسی کے جذبات کی تضحیک کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکیوں کی معمول کی بحث جس گروپ میں ہوئی اس کا یونیورسٹی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں تاہم جن لڑکیوں کو شکایت تھی اس کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔‘

شروع میں یونیورسٹی انتظامیہ نے میڈیا کو اس احتجاج کی کوریج سے نہ صرف روکا بلکہ اس بارے میں باقاعدہ تردید جاری کی، لیکن جب مریم اور زینب نامی طالبات نے اپنا احتجاج سوشل میڈیا کے ذریعے عام کیا تو انتظامیہ اس گروپ سے لاتعلقی کا اظہار کرنے لگی ۔

ٹوئٹر پر لمز کی طالبہ مریم  نے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا :’لمز میں کیمپس اور آن لائن سپیسس میں برقرار زن بیزاری کے خلاف آج دھرنا۔‘

زینب نے لکھا : لمز میں طالبات نے 600 اراکین کا ایک فیس بک گروپ ڈھونڈ نکالا ہے جس پر خواتین کو نشانہ بنانے والا توہین آمیز اور ناگوار مواد پوسٹ کیا جا رہا تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی طالبات اب متحد ہو کر لمز کی انتظامیہ سے ایسے عورت دشمن کیمپس کلچرکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

فیس بک پر وفا عاشر نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ لمز میں ایک مہم ابھرتی نظر آرہی ہے اور ان کوخواتین پر فخر ہے۔ ’ہمارا غصہ جائز ہے اور ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ کیمپس میں محفوظ محسوس کرنا ہمارا حق ہےاور ہم اس کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘

حسن نے لکھا کہ اس واقعے سے ظاہر ہو گیا کہ زہریلی مردانگی متحد خواتین کے آگے کچھ نہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس