کیا پاکستان کی معاشی حالت واقعی اتنی بری ہے؟

دنیا میں پاکستانی معیشت کی ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے۔

اے پی فوٹو

عالمی مالیاتی اداروں نے رواں اور آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی حالت سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ دو سالوں میں پاکستان کی معاشی ترقی میں اضافے کی شرح کم رہے گی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک 2019 نامی رپورٹ میں رواں سال کے دوران پاکستانی معیشت کی مزید زبوں حالی کے علاوہ بے روزگاری میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔

اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں جی ڈی پی کی نمو مزید کم ہو کر 3.9فیصد رہ جائے گی۔

تاہم پاکستان میں آزاد ماہرین معاشیات بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پیش گوئیوں سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹیز سکول کے سربراہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں کو رد کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔

ان کا انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ گذشتہ چھ ماہ میں ایسی کیا قیامت بپا ہوئی کہ ان اداروں کو پاکستان میں سب کچھ غلط نظر آنے لگا۔

انہوں نے کہا کہ انہی اداروں کی پہلی رپورٹوں میں پاکستان کی معاشی حالت کو بہت بہتر اور صحت افزا قرار دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر اشفاق کے مطابق پاکستان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ مانگے۔

انہوں نے کہا: دنیا میں پاکستانی معیشت کی ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے۔

تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان میں ترقی کی نمو میں کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔

دوسری طرف سابق نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورت حال کچھ اتنی ہی بری ہے۔

انہوں نے کہا پاکستان میں تو معاشی حالات عام طور پر اسی طرح ناسازگار رہتے ہیں۔

عالمی اداروں کی پیش گوئیوں سے اتفاق کیے بغیر انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔

ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ادائیگیوں کے توازن میں کم از کم 30 ارب ڈالرز کا فرق تھا، جو بہت بڑا ہے۔ ادائیگیوں کے اسی فرق کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دوست ممالک کی مدد سے اس صورت حال پر قابو پایا۔

ڈاکٹر سلمان کے مطابق پاکستان میں امکانات تو بہت زیادہ ہیں لیکن کمزور مالیاتی ادارے ان سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ برے انتظامی معاملات کے باعث معیشت پنپ نہیں رہی۔

ڈاکٹر اشفاق نے حکومت کو مشورہ دیا کہ برآمدات کو کم کر کے 6 سے7ارب ڈالرز کی بچت کی جا سکتی ہے۔

ان کے خیال میں گاڑیوں اور موبائل فون جیسی دوسری کئی غیر ضروری اشیا کی برآمدات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاکستانیوں کے لیے دوسرے ملکوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر کام کرنا چاہئیے، جس سے غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا۔

ڈاکٹر سلمان کا خیال ہے کہ حکومت کو ٹیکس کے نظام کو سہل بنانے کے علاوہ سرخ فیتے کو ختم کرنا چاہیے۔

انہوں نے بجلی کے نظام میں بہتری کے علاوہ بڑے اداروں میں انتظامی اصلاحات کا مشورہ بھی دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت