’لوگوں سے تنگ آ کر ہوٹل کا نام بہن جی رکھ لیا‘

شاہینہ نے اپنے شوہر کی بیماری کے بعد گھر کی کفالت کا بیڑہ اٹھایا اور چوک نواں شہر پر ایک کھانے کی ریڑھی لگا لی اور ریڑھی پر ’بہن جی کا موبائل ہوٹل‘ لکھوا لیا۔

شاہینہبہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے گیٹ پر کھانا فروخت کر تی ہیں

’میں بھی ایک گھر داری کرنے والی عورت تھی جو گھر بیٹھ کر اپنے شوہر کی کمائی کا انتظار کرتی ہے اور گھر کا کھانا وانا پکاتی ہے، میں بھی وہی عورت تھی۔ لوگ عورت کی شکل و صورت نہیں دیکھتے وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ عورت ہے۔‘

یہ الفاظ ہیں ملتان کی رہائشی شاہینہ بی بی کے جو ’بہن جی‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

شاہینہ نے اپنے شوہر کی بیماری کے بعد گھر کی کفالت کا بیڑہ اٹھایا اور چوک نواں شہر پر ایک کھانے کی ریڑھی لگا لی اور ریڑھی پر ’بہن جی کا موبائل ہوٹل‘ لکھوا لیا۔

آج کل وہ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے گیٹ پر کھانا فروخت کر رہی ہیں لیکن اب ریڑھی پر نہیں بلکہ رکشہ میں فروخت کر رہی ہیں۔

ریڑھی سے رکشہ تک کے سفر کی آپ بیتی سناتے ہوئے شاہینہ نے بتایا کہ  ’میرے ساتھ یہ ہوا کہ میرے میاں بیمار ہو گئے جن کو ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف ہوئی۔وہ بیمار ہوتے ہوتے بستر پر پڑ گئے۔‘

’مشکل جب آن پڑی تو میرے ذہن میں آیا کہ کیا کروں میں آخر۔‘

شاہینہ کے مطابق: ’اللہ نے مجھے ہمت دی کہ میں نے اپنے میاں سے بات کی کہ اب فاقوں تک آ گئی ہے، آپ کے علاج کے لیے بھی پیسے چاہیے اور امی کےلئے بھی دوا چاہیے۔‘

’پھر یہ ہوا کہ میرے اللہ نے میرے ذہن میں ڈالا کہ میں کھانا تو پکا سکتی ہوں تو کیوں نہ میں یہی کھانا باہر جا کر فروخت کروں اور اس طرح میں اپنے گھر کی کفالت بھی کر سکوں اپنے بیمار شوہر کی دوا وغیرہ بھی لے سکوں اور اپنی ساس کو بھی سنبھال سکوں، گھر کا خرچہ بھی کر سکوں، بچے کو بھی پڑھا سکوں تو بس پھر میں نے سٹارٹ کر دیا۔‘

 

وہ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو انہیں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

’میں جانتی ہوں یا میرا رب کہ جب میں باہر نکلی تو اتنا لوگوں کا رویہ بہت خراب تھا۔ بری نظروں سے دیکھنا، طعنے کسنا اور اس طرح سے باتیں کرنا کہ یقین جانیے اس وقت یہ دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جاؤں۔‘

مگر شاہینہ کے مطابق انہوں نے اس وقت اپنے رب سے کہا کہ ’اللہ یا مجھے موت دے دے یا پھر مجھے ہمت دے دے۔‘

’اس کے بعد سے میں نے ان نظروں کو فیس کیا اور خود سے کہا کہ میں نے کرنا ہے میں نے اپنے گھر سنبھالنا ہے۔‘

شاہینہ نے مزید بتایا کہ میں نے سوچا  جب میں نکل ہی آئی ہوں تو میں نے ہمت نہیں ہارنی اور آہستہ آہستہ جب میں نے کام شروع کیا تو میں نے چھوٹے چھوٹے برتنوں سے آغاز کیا، ’میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا اس وقت اللہ نے ایسا کیا کہ ایک میرے بھائی تھے جو جاننے والے  انہوں نے کہا کہ میں آپ کی ہیلپ کروں گا تھوڑی بہت آپ تھوڑے برتن لے لو تو اس طرح کر کے میں نے برتن لیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتا ہیں کہ انہیں  اپنے اس ہوٹل کی خاطر رات 12 بجے اٹھنا پڑتا ہے اور مشکل سے ہی ایک یا دو گھنٹے سو پاتی ہیں۔بارہ بجے اٹھنے کے بعد انہوں نے بریانی، چاول چھولے، زردہ اور پائے اور سالن نہاری یا حلیم  تیار کرنی ہوتی ہے جسے لے کر وہ ساڑھے چار بجے گھر سے نکال جاتی ہیں۔

’ایک دن میں بیٹھی سوچ رہی تھی تو خیال آیا کیوں نہ اپنے موبائل ہوٹل کا نام ’بہن جی‘ رکھ لوں، تاکہ جب لوگ آئیں تو پوچھیں کہ نام کیا ہے تو میں کہوں بہن جی۔‘

شاہینہ کہی کہیں کہ اس طرح انہوں نے اپنی ریڑھی پر بہن جی لکھوا دیا تو بس پھر وہی بہن جی جن کو لوگ بری نظروں سے دیکھتے تھے اچھا نہیں جانتے تھے آہستہ آہستہ اچھی نظروں سے دیکھنے لگے اور بہن جی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔

 ’آج وہ وقت ہے کہ میں نے ریڑھی سے قسطوں پر رکشہ لے لیا اور اپنے گھر کا گزر بسر اسی سے چلا رہی ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی