28 برس تک بے ہوش رہنے والی خاتون

متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی منیرہ عبداللہ 1991 میں ایک کار حادثے میں دماغ کی چوٹ کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھیں۔ اُس وقت ان کی عمر 32 برس تھی۔

فائل تصویر : روئٹرز

متحدہ عرب امارات کی ایک خاتون 28 برس تک بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آ گئیں۔

منیرہ عبداللہ 1991 میں ایک کار حادثے میں دماغ کی چوٹ کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھیں۔ اُس وقت ان کی عمر 32 برس تھی۔

کئی برس تک خاتون کے دوبارہ ہوش میں آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ انھیں 2017 میں جرمنی منتقل کردیا گیا، جہاں ان کا علاج کیا گیا جس کے نتیجے میں گذشتہ برس انھوں نے تھوڑا بہت رد عمل ظاہر کرنا شروع کیا اور اب وہ ہوش میں آگئیں۔

منیرہ کے بیٹے عمر ویبائر (Omar Webair) نے اخبار دی نیشنل کو بتایا: ’ میں والدہ کے معاملے میں کبھی مایوس نہیں ہوا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ایک دن وہ ہوش میں آ جائیں گی۔‘

اماراتی شہر العین میں جب منیرہ عبداللہ کی کار کو ایک سکول بس نے ٹکر ماری اس وقت ان کے بیٹے کی عمر چار برس تھی۔ والدہ نے بیٹے کو بچانے کے لیے اسے سینے سے لگا لیا۔ حادثے میں عمر کو معمولی زخم آئے لیکن منیرہ کو دماغی چوٹ لگی، کئی گھنٹے تک ان کا علاج نہ ہوسکا، بالآخر انھیں سپتال لے جایا گیا جس کے بعد سپیشلسٹ ڈاکٹر کے علاج کے لیے انھیں لندن منتقل کردیا گیا۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ منیرہ معمولی ہوش میں ہیں، ان کی حالت کومے سے ملتی جلتی ہے لیکن انھیں درد محسوس ہوتا ہے۔  

بعدازاں انھیں متحدہ عرب امارات واپس بھیج دیا گیا جہاں کئی برس تک انھیں نالی کے ذریعے خوراک دی گئی اور ان کے اعصاب کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کی فزیو تھراپی کی جاتی رہی۔

عمر ویبائر کے مطابق 2017 میں ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید نے ان کی والدہ کے جرمنی میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کے علاج کے اخراجات ادا کرنے کی پیشکش کی۔

جرمنی میں ڈاکٹروں نے منیرہ عبداللہ کے علاج کی ترجیحات طے کیں اور ان کے سونے اور جاگنے کے انداز میں بہتری لانے کے لیے انھیں ادویات دی گئیں۔

نیورولوجی کے سپیشلسٹ ڈاکٹر احمد ریل نے اماراتی اخبار کو بتایا کہ ہمارا بنیادی مقصد منیرہ عبداللہ کو ایک صحت مند جسم کے ساتھ ہوش میں لانا تھا، بالکل اُسی طرح جیسے ایک نازک پودے کو اگنے کے لیے اچھی زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔

عمر ویبائر نے بتایا: ’علاج کی بدولت والدہ کا ردعمل بہتر ہوتا گیا۔ ایک سال بعد 2018 میں ان کے سپتال کے کمرے میں جھگڑا ہوا جس سے انھیں ایک جھٹکا لگا اور انھوں نے عجیب سی آوازیں نکالنی شروع کردیں۔ میں نے ڈاکٹروں کو انھیں دیکھنے کے لیے کہا، جس پر ڈاکٹروں نے سب کچھ معمول کے مطابق قرار دیا۔‘

عمر کے مطابق: ’تین برس بعد ایک آواز نے مجھے جگا دیا۔ والدہ میرا نام لے رہی تھیں۔ میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں اس لمحے کا کئی برس سے خواب دیکھ رہا تھا۔ والدہ نے سب سے پہلے جو لفظ بولا وہ میرا نام تھا۔‘

اس وقت منیرہ عبداللہ ابوظہبی میں اپنے خاندان کے پاس واپس آ چکی ہیں جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ ان کی حالت میں مزید بہتری آرہی ہے، وہ اب گفتگو کرنے کے قابل ہیں۔ وہ دعا مانگتی ہیں اور لوگوں کو بتاتی ہیں کہ انھیں کس وقت درد ہوتا ہے۔

ان کے بیٹے کے مطابق: ’والدہ کے ساتھ پیش آنے والے حالات دوسروں کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے معاملے میں کبھی مایوس نہ ہوں، جب وہ ایسی حالت میں ہوں جیسی میری والدہ کی تھی تو انھیں مردہ مت خیال کریں۔‘

عمر نے مزید بتایا کہ والدہ کی بے ہوشی کے دوران ڈاکٹر کئی برس تک انھیں بتاتے رہے کہ ان کی والدہ کا معاملہ مایوس کن ہے اور ان کا ویسا علاج نہیں ہوسکتا، جیسا میں چاہتا ہوں، لیکن مجھ سے جو بَن پڑا میں نے اپنی والدہ کے علاج کے لیے کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت