’ڈراؤنی امی‘ نے ہزاروں ماؤں کو جوڑ دیا

لاہور کی عائشہ ناصر فیس بک کے ذریعے ایک ایسا ماحول تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہیں، جہاں مائیں بچوں کے ساتھ مل کر کچھ سیکھ اور سکھا سکیں۔

ہاتھ میں بڑا سا موبائل فون جس پر دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے بڑی تیزی سے چل رہے تھے، آنکھیں فون کی سکرین پر گڑی تھیں، چہرے پر کبھی مسکراہٹ آتی اور کبھی ہونٹ جنبش کرتے جیسے کچھ پڑھ رہے ہوں یا یوں بھی لگتا کہ جیسے ہلتے ہونٹوں کی آواز دل میں کہیں گونج رہی ہو کیونکہ شاید موبائل پر آنے والا تبصرہ پسند آ گیا ہو، یا پھر نہیں۔

یہ ایک بڑا سا ہال نما ڈرائنگ اور ڈائننگ روم تھا، جس کی بڑی سی میز پر کچھ میٹھے پکوان تیار کر کے رکھے گئے تھے۔ اس میز کے سامنے ایک کیمرہ مین اور اس کا معاون کھڑا اگلی ہدایت کا انتظار کر رہا تھا جبکہ میز کی دوسری جانب ایک خاتون کھڑی تھیں جنہوں نے وہ پکوان تیار کیے تھے مگر اُدھر ہاتھ فون سے اٹھ نہیں رہے تھے۔

یہ 35 سالہ عائشہ ناصر ہیں جو آج کل لاہور میں ’سکیری امی‘ (ڈراؤنی امی) کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا جیسے ہم کسی سٹوڈیو میں آ گئے ہوں جہاں کسی فلم کی عکس بندی چل رہی ہو، مگر ایسا نہیں تھا بلکہ یہاں تو بچوں کے لیے میٹھے پکوان کی ترکیب عکس بند کی جا رہی تھی جسے لاہور کی ایک مشہور بیکر نے عائشہ کے ساتھ مل کر ان کے فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل کے لیے تیار کیا تھا۔

چار بچوں کی والدہ عائشہ ڈاکٹر بھی ہیں اور صحافی بھی۔ انہوں نے نو سال کی عمر میں پاکستان کی وزیراعظم بننے کی بھی ٹھانی تھی لیکن اب وہ صرف ڈراؤنی امی ہیں۔

’سکیری امی‘ کا فیس بک پیج بنانے کا خیال عائشہ کو چھ ماہ پہلے آیا۔ انہوں نے بتایا: ’ایک کہاوت ہے کہ ایک بچے کو پالنے کے لیے پورا ایک گاؤں چاہیے مگر اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور ہر بندہ اکیلا اکیلا ہو گیا ہے۔ جو مجھے صحیح لگا اس کے مطابق میں نے اپنے بچوں کی پرورش کی۔‘

عائشہ کے خیال میں ماؤں کی معاونت کے لیے کوئی مددگار گروپ نہیں ہیں، ہاں البتہ مفت مشورہ دینے والے بہت سے لوگ ہیں۔ بقول ان کے: ’میں چاہتی تھی کہ ایک ایسا گروپ ہو جو ہمیں اُس طرح کی ماں بننے میں مدد کرے جو ہم بننا چاہتی ہیں۔‘

سکیری امی گروپ کے اس وقت 16 ہزار اراکان ہیں۔ یہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ’ڈراؤنی امی‘ چاہتی ہیں کہ اس گروپ کی تشکیل کو ایک برس ہونے سے قبل وہ کم از کم دس شہروں میں اپنا کام شروع کریں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ نے ایک کمیونٹی بنانی ہے تو صرف آن لائن کمیونٹی بنانا کافی نہیں۔ سکیری امی بہت سے ایونٹس منعقد کرتی ہے جس کا مقصد صرف ماؤں کو تعلیم دینا اور ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہے جہاں مائیں بچوں کےساتھ مل کر کچھ سیکھ اور سکھا سکیں۔‘

سکیری امی کے فیس بک پیج کو نہ تو مرد دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے رکن بن سکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے عورت یا ماں ہونا ضروری ہے۔

اس گروپ میں جہاں گھروں میں رہ کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے والی مائیں شامل ہیں، وہیں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی مائیں بھی ہیں۔ نوجوان ماؤں کے علاوہ نانیاں اور دادیاں بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔

ایک سالہ بچے کی ماں 35 سالہ ایڈووکیٹ مہوش ہادی کے خیال میں سکیری امی گروپ ان کے بیٹے کی پرورش میں بہت مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کا مجھے پتا نہیں ہوتا، اس کے حوالے سے مجھے بہت جلدی یہاں جواب مل جاتا ہے، یہاں بہت سے لوگ بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‘

بزنس ویمن ماریہ ملک کے خیال میں اس گروپ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس نے ماؤں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ ’یہاں ہم ایک دوسرے کا سہارا بنتے، مدد کرتے ہیں اور بچوں کے ساتھ اکٹھے پلے ڈیٹس وغیرہ پر بھی جاتے اور ملتے جلتے ہیں۔‘

یہی نہیں اگر آپ کوئی چھوٹا موٹا بزنس کرتی ہیں یا گھر بیٹھے کوئی اور کام کر رہی ہیں تو اس کام کے بارے میں لوگوں کو بتانے یا اپنے بزنس کے فروغ کے لیے اس گروپ میں ایک دن مخصوص کیا گیا ہے اور اس دن اس کا اشتہار یا اس کے بارے میں معلومات دیگر گروپ ارکان کے ساتھ شئیر کی جا سکتی ہیں۔

مہینے کے شروع میں سکیری امی کے فیس بک پیج پر عائشہ پڑھنے کے لیے کوئی کتاب بھی تجویز کرتی ہیں اور پھر مہینے کے آخری دن اس کتاب کے ریویو کے لیے مائیں ناشتے یا کافی پر اکٹھی ہو جاتی ہیں۔

اس بیٹھک میں ہر وہ رکن آسکتا ہے جس کا دل کرے۔ اس طرح کے کئی ایونٹس ہوتے رہتے ہیں۔ کرنا بس یہ ہے کہ پہلے آئیں اور پہلے پائیں، ہاں لیکن جو مائیں سکیری امی کی کسی تقریب میں آتی ہیں انہیں تھوڑی بہت رقم دینا ہوتی ہے جیسے پانچ سو یا ہزار روپے۔ اس رقم سے تقریب کی جگہ اور وہاں کھانے پینے کے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔

سکیری امی کی گروپ تھراپی بھی مشہور ہے جس میں ایک ماہر تھراپسٹ 10 سے 12 ماؤں کے گروپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے یا ان کے بچوں کے وہ مسائل سنتے ہیں جن کا ذکر وہ کسی اور سے نہیں کرسکتیں اور پھر انہیں ان مسائل کا حل بھی بتایا جاتا ہے۔

عائشہ ناصر کے خیال میں ایک ماں ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں کہ بچوں کے ساتھ ساتھ ہم خود کیا سیکھ رہے ہیں یا اس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ماں گھر کی رانی ہوتی ہے، اس کے پاس فیصلہ کرنے کی طاقت ہوتی ہے یہاں تک کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انقلاب آیا، اس کی شروعات کہیں نہ کہیں ماؤں نے ہی کی تھی، اسی لیے پاکستان میں خاص طور پر تعلیمی پالیسی بناتے ہوئے ماہرین کے ساتھ ساتھ ماؤں کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ آخر انہیں اپنے بچوں کے لیے کیا چاہیے، کیونکہ اگر ماں ہی آپ کی بنائی گئی پالیسی سے مطمئن نہیں تو وہ گھر میں کبھی اس پر عملدرآمد نہیں کروائے گی۔

عائشہ کہتی ہیں کہ سکیری امی دراصل ماؤں کی مدد کرنے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ایک قومی اور بین الاقوامی تحریک ہے اور انہیں یقین ہے کہ جب ایک ماں کی آواز اٹھتی ہے تو معاشرے میں تبدیلی ضرور آتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی گھر