شیریں مزاری نے ایران میں سیاہ برقع کیوں پہنا؟

ڈاکٹر شیریں مزاری دورہ ایران میں ایک سفارتی وفد کا حصہ تھیں، ڈاکٹر مزاری کا روضہ امام علی رضا کے دورے پر سیاہ برقع زیب تن کرنا سفارتی و مذہبی آداب کے عین مطابق تھا

تصویر: ٹوئٹر/ شہزاد علی

سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت بھیڑ چال پر یقین رکھتی ہے، کسی نامعلوم مقام سے شروع ہونے والا ٹرینڈ بغیر کسی تصدیق کے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران کی چند تصاویر موضوع بحث رہیں، جن میں پاکستان کی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی سیاہ برقع میں ملبوس تصویر ٹاپ رہی۔

شیریں مزاری کے برقع اوڑھنے کو بعض صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے دوغلا پن اور منافقت قرار دیا جبکہ بہت سوں نے اس تصویر کو ایران کی سخت گیر پالیسی کا ایک مظہر قرار دیا۔

ایران اور پاکستانی میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے سیاہ برقع دورہ ایران میں صرف ایک موقع پر پہنا، جب وہ شہر مشہد میں آستان قدس رضوی کی حدود میں موجود تھیں۔ یہ شیعہ مسلمانوں کے آٹھویں امام علی رضا کا روضہ ہے، جسے ایران میں اس حد تک روحانی اہمیت حاصل ہے کہ اس شہر کو مشہد مقدس کہا جاتا ہے۔

عمران خان نے اپنے دورے کا آغاز اسی مشہد مقدس سے کیا جہاں دورے کے پہلے دن پاکستانی وفد کو روضہ امام علی رضا کی زیارت کرائی گئی۔ روضے کے احاطے میں ہی موجود قرآن پاک کے قدیم نسخوں کے میوزیم لے جایا گیا جبکہ روضے کے متولی احمد مروی سے وفد کی ملاقات کرائی گئی۔

پاکستانی وفد میں دو خواتین شامل تھیں، ایک ڈاکٹر شیریں مزاری اور دوسری ایران میں پاکستانی سفیر رفعت مسعود، دونوں ہی خواتین نے روضہ امام رضا کے اس دورے پر سیاہ برقع زیب تن کیا، جبکہ دورہ ایران کے دیگر مواقع پر یہ دونوں خواتین پاکستانی لباس یعنی دوپٹے، قمیض شلوار اور سکارف میں نظر آئیں۔

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے مزار پر بھی برقع پہننے کی پابندی نہیں، ہاں مگر روضہ امام علی رضا کی زیارت کرنے والی خواتین کو سخت شرعی پردے کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں روضے میں داخل ہونے سے قبل سکیورٹی چیک پوائنٹ موجود ہیں، جہاں خواتین کے سیکشن میں موجود خواتین رضاکار باڈی سرچ کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتی ہیں کہ خاتون نے مکمل حجاب کر رکھا ہے یا نہیں۔ جن خواتین کے حجاب میں کمی محسوس ہو انہیں اسی چیک پوائنٹ پر سیاہ یا پھول دار پرنٹ والا عبایا اور برقعے عارضی طور پر دیے جاتے ہیں جو روضے سے نکلتے وقت واپس کرنے پڑتے ہیں۔

ایران و عراق کے مذہبی مقامات کا کنٹرول حکومت سے زیادہ مراجع اور دینی علما کرام کے ہاتھ میں ہے جہاں شرعی حجاب کی پابندی لازمی ہے۔ ایران میں شرعی حجاب ایک ایسی بڑی چادر کو کہا جاتا ہے جس سے مکمل جسم چھپ سکے البتہ خاتون کے چہرے پر نقاب کی کوئی پابندی نہیں، صرف سکارف مکمل حجاب کے زمرے میں نہیں آتا اسی لیے روضے کے احاطے میں ناقابل قبول ہے۔ روضے کے اندر اگر یہ چادر سر سے اتر جائے تو انتظامیہ کی رضاکار خواتین نجانے کہاں سے نمودار ہوجاتیں ہیں اور کھلے سر کی جانب اشارہ کر کے کہتی ہیں ’خانم ! حجاب‘۔

سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے 90 کی دہائی میں ایران اور عراق کا دورہ کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو یوں بھی نہایت وضع داری کے ساتھ لباس کا انتخاب کرتی تھیں تاہم دورہ ایران میں انہوں نے اپنے مخصوص سفید سکارف کے بجائے سیاہ چادر کا انتخاب کیا، ان کے دورہ ایران کی تصاویر آرکائیو میں اب بھی موجود ہیں جس میں محترمہ امام علی رضا کے روضے کی جالیوں کو تھامے کھڑی ہیں۔ اس تصویر میں انہیں سیاہ برقعے میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی عراق میں بے نظیر بھٹو نے روضہ حضرت عباس اور امام حسین کے احاطے میں بڑی چادر پہنے رکھی تاہم حکومتی ارکان سے ملاقاتوں میں وہ پاکستانی لباس و انداز میں نظر آئیں۔

زیارات یا سیر و سیاحت کی غرض سے ایران کا سفر کرنے والی خواتین کو علم ہے کہ ایران میں خواتین کا سر کو ڈھانپ کر رکھنا سرکاری طور پر لازمی ہے، اس قانون کا اطلاق زوار، سیاح مسافر خواتین، غیر ملکی وفود میں شامل خواتین پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری نہیں کہ سیاہ برقع ہی پہنا جائے، تہران میں خواتین نہایت ماڈرن دیدہ زیب مغربی لباس کے اوپر سکارف لیتی ہیں جسے ایسے انداز سے پہنا جاتا ہے کہ خاتون کے بال بھی نظر آئیں اور سر پر سکارف بھی رہے۔

یہ معاملہ صرف ایران میں ہی درپیش نہیں، دبئی کی شیخ زاید الکبیر مسجد میں مسلم اور غیر مسلم خواتین جا سکتی ہیں مگر مسجد کے آداب کے مطابق عبایا پہننا لازمی ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اسرائیل میں دیوار گریہ کی زیارت کرنے والے افراد سر پر یہودیوں کی مخصوص ٹوپی ’کپاہ‘ ضرور پہنتے ہیں چاہے وہ عالمی لیڈرز ہی کیوں نہ ہوں، اس مذہبی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے، ویٹی کن جانے والے سیاحوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ ایسا لباس پہنیں جس سے عریانی نہ جھلکتی ہو۔ یہ ایک مذہبی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا انداز ہے، جس میں کوئی قباحت ہے نہ ہی برائی۔

اگر ناقدین اس بات پر سوال اٹھاتے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بطور وزیر انسانی حقوق ایران میں کن امور پر بات کی؟ ایران میں دگرگوں ہوتی انسانی حقوق کی صورتحال پر کیا ردعمل دیا ؟ وغیرہ وغیرہ تو یہ تنقید جچتی بھی، مگر اہم معاملات کو چھوڑ کر ایک خاتون کے لباس کو موضوع بحث بنانا درست نہیں۔

دراصل ناقدین کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری دورہ ایران میں ایک سفارتی وفد کا حصہ تھیں، ڈاکٹر مزاری کا روضہ امام علی رضا کے دورے پر سیاہ برقع زیب تن کرنا سفارتی و مذہبی آداب کے عین مطابق تھا۔ کسی بھی خاتون کی طرح یہ سراسر ان کی ذاتی پسند اور فیصلہ ہے کہ وہ کب دوپٹہ گلے میں ڈالیں، کب سر پر اوڑھ  لیں اور کب برقع پوش ہوجائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ