بھارتی انتخابات: کشمیری ووٹ کیوں ڈالیں

عوام کا 80 فیصد طبقہ انتخابی عمل پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی انتخابات نے آج تک اس ریاست میں کوئی ایسا کارنامہ کر دکھایا ہے جو بھارت کی باقی ریاستوں میں ہوا ہے۔

بھارتی پیراملٹری ملیشیا کا ایک اہلکار اننت ناگ کے ایک پولنگ سٹیشن میں دو عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے بعد جاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ فائل فوٹو۔ اے ایف پی

میں اُس پولنگ بوتھ  کی بات نہیں کر رہی ہوں جس کے باہر ووٹروں کی ایک لمبی قطار موجود تھی یا اُس مرکز کی جہاں مختلف جماعتوں کے کارکن ووٹروں کو اپنی جانب مائل کر رہے تھے۔ یہ مہاراشٹر کا وہ بوتھ بھی نہیں جہاں شیو سینا کے ورکر اپوزیشن کو ہرانے کی تاک میں موجود تھے یا مالدہ کا وہ مرکز بھی نہیں جہاں ممتا بینرجی اور باجپا کے جوشیلے کاری کرتا طاقت آزمائی کے لیے بیٹھے تھے۔

میں شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر کے جنوب میں واقع کھاشی ٹینگ کے علاقے میں اُس بوتھ کا تذکرہ کر رہی ہوں جو پارلیمانی نشست اننت ناگ میں شامل ہے، جہاں چند برس پہلے محال ہی کوئی آزادی پسند، مسلح یا غیر مسلح فرد اندر آنے کی جرات رکھتا تھا۔ اس علاقے میں وہی زبان بولی جاتی تھی جو ڈل جھیل پر واقع گپکار کی مہنگی ترین سرکاری کوٹھی سے نکل کر اونتی پورہ کے راستے سے ہوکر بجبہاڈہ کے بابہ محلہ (یہ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا آبائی گاؤں ہے) تک پہنچ جاتی تھی اور احکامات کے تحت بیشتر لوگ جوق در جوق ووٹ ڈالنے نکل جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کٹر بھارت نواز سیاست دان شیخ محمد عبداللہ کے دور اقتدار میں یہاں صرف نیشنل کانفرنس کی طوطی بولتی تھی اور کسی کو سر اٹھا کر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن بعد میں ان کے اکثر مخالفین اسی علاقے سے ابھرے جن کے بارے میں شیخ عبداللہ نے عوام کو خاص ہدایت دی تھی کہ انہیں یہاں دفن کرنے کی جگہ بھی نہیں ملنی چاہیے۔ 

یہی وہ علاقہ ہے جہاں بھارت کے سابق وزیر داخلہ اور سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید سیاسی افق پر ابھرے اور آج کل ان کی بیٹی اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی پارلیمان کے لیے انتخابی امیدوار ہیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ یہاں ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کے دوران دو فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے جو خود محبوبہ مفتی کے لیے ایک سانحے سے کم نہیں۔ 

جموں و کشمیر میں انتخابات کا انعقاد اسی طرح سے ہمیشہ متنازعہ رہا ہے جس طرح اس ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کا معاملہ رہا ہے۔ 

عوام کا 80 فیصد طبقہ انتخابی عمل پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی انتخابات نے آج تک اس ریاست میں کوئی ایسا کارنامہ کر دکھایا ہے جو بھارت کی باقی ریاستوں میں ہوا ہے۔ وہ چاہے ترقیاتی عمل ہو، بنیادی حقوق کی پاسداری ہو یا شہریوں کو تحفظ فراہم کرانا ہو۔ ووٹ کوئی ڈالے یا نہ ڈالے جموں وکشمیر میں پھر بھی حکومتیں بنتی رہی ہیں، رشوت چلتی رہی ہے، لوگ مرتے رہے ہیں، آزادی کی تحریکیں جاری رہی ہیں اور انتخابی دھاندلیاں ہوتی رہی ہیں۔ 

انتخابات کرانے کا واحد مقصد ہوتا ہے کہ ریاست کی متنازعہ حیثیت کو زائل کیا جائے تاکہ عالمی برادری میں اپنے موقف کی تقویت حاصل کرنے میں بھارت کو آسانی پیدا ہوسکے۔ جنوبی کشمیر میں جو جنگجو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پرتشدد حالات کی زد میں ہے، اس بار ووٹ ڈالنے کا عمل اس لیے بھی غیر دلچسپ رہا کہ پچھلی بار محبوبہ مفتی نے عوام سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو دور رکھنے کے لیے ووٹ مانگا تھا۔ پھر اسی بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے حکومت بنائی جو موجودہ انتشار، تشدد اور قتل و غارت گری کا موجب تصور کیا جا رہا ہے۔ 

اننت ناگ کے جس کھاشی ٹینگ میں محبوبہ مفتی کے لیے اب کی بار رشتہ داروں کے محض چند ووٹ پڑے۔ اُسی علاقے میں گذشتہ انتخابات میں انہیں کافی لوگوں نے ووٹ دیا تھا خصوصاً عورتوں نے جن کو امید تھی کہ عورت ہونے کے ناطے وہ ان کے بچوں کے تحفظ کا کوئی حل تلاش کر لے گی۔

سکینہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیادی کارکن رہی ہے۔ لیکن اس بار اس نے ووٹ نہیں ڈالا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے سکینہ کہتی ہیں کہ ’انہیں آزادی پسندوں کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ بھارت نواز سیاست دانوں نے انہیں بولٹ، پیلٹ اور لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا، جس کی بنیاد شیخ عبداللہ نے ڈالی اور محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے ہمارے بچوں کی میتوں سے قبرستان سجائے۔‘

انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل ہر مرتبہ حریت رہنماؤں کی جانب سے جاری ہوتی رہی ہے لیکن اس بار خود عوام کا بڑا حلقہ انتخابات سے دور رہا۔ خصوصاً عورتوں نے اس بار محبوبہ مفتی کو ووٹ دینے سے اجتناب کیا جو پچھلے انتخابات میں انہیں جتوانے کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے جوق درجوق نکلی تھیں۔

مسلح تحریک کے دوران لاپتہ ہونے والے تقریباً دس ہزار افراد کے لواحقین کی انجمن اے پی ڈی پی کی سربراہ پروینہ آہنگر نے بھارت نواز سیاست دانوں سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ ’اگر آپ کے انتخابات ہمارے لاپتہ بچوں کو واپس ہمارے حوالے کریں گے تو ہم انتخابات میں شریک ہونے کے لیے تیار ہیں۔‘ پروینہ کا بیٹا مسلح تحریک کے دوران لاپتہ ہوا ہے اور وہ اب بھی دوسری ماؤں کے ساتھ اپنے بچے کو ہر جیل، پولیس سٹیشن اور انٹیروگیشن سنٹر میں تلاش کر رہی ہیں جو تادم لاحاصل رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابی عمل میں بھارت نواز سیاست دانوں نے پہلی بار کھل کر حریت رہنماؤں کی تعریف کی اور حریت رہنماؤں کی گرفتاری یا انہیں ہراساں کرنے پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا حتیٰ کہ فاروق عبداللہ نے لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک کو ایک پروقار شخص قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کے سامنے جھکنے سے اپنی موت کو ترجیح دے رہے ہیں جس پر بھارت کے سیاسی حلقوں نے خاصا ہنگامہ برپا کیا۔

حریت رہنما بھارتی حکومت کی زیادتیوں کا شکار ہوتے آرہے ہیں مگر آج کل پہلی بار بھارت نواز سیاست دان بھی عتاب کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ مستقبل میں جموں و کشمیر کی سیاسی صورتحال میں خاصا تغیر دیکھنے کو ملے گا اگر بھارتیہ جنتا پارٹی پھر دلی کے تخت پر براجمان ہوتی ہے۔

گوکہ بھارت کے مختلف انتخابی مرکزوں پر اس بار پہلے جیسی گہما گہمی نہیں دیکھی گئی مگر کشمیر میں اس بار انتخابی مرکزوں پر مکمل سناٹا دیکھا گیا جو 1996 سے بھی بدتر تھا جب مسلح تحریک کو کچلنے کے لیے حکومت بھارت نے اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں کی مانگ کے لیے آسمان کی کوئی حد نہیں۔

آج کل بیشتر کشمیری ایک ہی بات کہتے نظر آرہے ہیں کہ اب تک کے انتخابات نے انہیں تشدد، لاشوں اور رشوت کے سوا کیا دیا جو یہ سب اب نہیں ہوگا جب ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کشمیریوں کا وہ سب چھیننا چاہتی ہے جس کی ضمانت انہیں آئین ہند نے دی ہے۔ 

جن چند فیصد کشمیریوں نے پچھلے چار مرحلوں میں آج  تک ووٹ ڈالا وہ بھی کہتے ہیں کہ وہ محض اپنا تشخص اور خصوصی پوزیشن بچانے کے لیے انتخابات میں شامل ہوئے ہیں جس کو بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران ختم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر