فوج اور پی ٹی آئی: کس کے پیچھے کون ہے؟

میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا بریفنگ کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت کو سیاسی بیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے نہیں دلوانا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات کا ایک منظر۔ فائل تصویر: آئی این پی

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے گذشتہ روز اپنی دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی میڈیا بریفنگ میں بہت سے معاملات پر نہایت کھل کر گفتگو کی، اس میڈیا بریفنگ میں جہاں انہوں نے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور اس کے رہنماؤں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ دوسری جانب مدارس میں اصلاحات اور انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ سیاسی معاملات پر بھی گفتگو کی اور ’وردی‘ پر تنقید کرنے والوں پر بھی چوٹ کی۔

خصوصاً صحافیوں سے ہونے والی آف کیمرہ گفتگو میں میجر جنرل آصف غفور نے خاص طور سے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہمیں ’صاحب اور صاحبہ‘ کی بحث سے باہر نکل کر وہ کام کرنے ہوں گے جن سے نظام ٹھیک ہو۔

یہاں ان کا اشارہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہونے والی لفظی جنگ تھی، جس کی ابتدا بلاول کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے ہوئی تھی، جس میں انہوں نے عمران خان کو ’سلیکٹڈ‘ وزیراعظم کہا تھا، بس پھر کیا تھا، وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کا ’بدلہ‘ چکایا اور جنوبی وزیرستان کے صدر مقام و انا میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی کو ’بلاول صاحبہ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی جی آئی ایس پی آر کی میڈیا بریفنگ کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اور شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اپنی پالیسیاں اپنے متعلقہ وزراء کے ذریعے میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کرنی چاہییں۔

بلاول کا مزید کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر سے سیاسی بیانیہ دلوانے سے قومی ادارے متازع ہوتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی قطعاً ایسا نہیں چاہتی۔ انہوں نے کہا: ’وزیر داخلہ داخلی امور پر بیانیہ دیں، وزیر خارجہ خارجی امور پر بیانیہ دیں، سیاسی بیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے نہیں دلوانا چاہیے ورنہ ادارے متنازع ہوں گے.‘

ایک طرف تو بلاول بھٹو کا حالیہ بیان ہے، جس سے بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ فوج کے پیچھے پاکستان تحریک انصاف ہے جبکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی یہ موقف اختیار کرتی آئی ہے کہ پی ٹی آئی کے پیچھے فوج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے۔

ایک صارف نے ’پاک فوج زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے لکھا: ’کل تک یہ کہنے والا کہ تحریک انصاف کے پیچھے فوج ہے، آج وہ بلاول کہہ رہا ہے کہ فوج کے پیچھے تحریک انصاف ہے۔‘

کچھ صارفین نے بلاول کی توجہ صوبہ سندھ کی جانب کروانے کی بھی کوشش کی، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔

وہیں کچھ لوگوں نے بلاول کے ’وژن‘ کو شاندار بھی قرار دیا۔

 

تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، فوج کے ساتھ اس کے معاملات بہت ہموار چل رہے ہیں، گزشتہ برس ستمبر میں عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے پاکستانی فوج کو ملک کا واحد شفاف ادارہ قرار دیا تھا۔

اپنے ایک اور بیان میں وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہوئے نظر آئے تھے کہ ’فوج، پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے اور ہمیں فوج کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

اس بیان پر اٹھنے والی تنقید کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کو وضاحتی بیان دینا پڑا تھا کہ ’فوج ایک قومی ادارہ ہے اور اس کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست