بحریہ ٹاؤن متاثرین عدالتی فیصلے سے ناخوش

عدالت میں طے پایا ہے کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم سات سالوں میں ادا کرے گی۔

کراچی پریس کلب میں انڈیجنیئس رائٹس الائنس کی جانب سے منقعد کردہ پریس کانفرنس کا ایک منظر ۔تصویر۔:انڈپینڈنٹ اردو

سفید ٹوپی، ہلکی داڑھی اور جھریوں بھرے چہرے والے 64 سالہ روزی گبول کراچی کے ضلع ملیر میں واقع اپنے والد کے نام سے منسوب قدیمی گاؤں ارباب گبول گوٹھ (سندھی زبان میں گاؤں کو گوٹھ کہتے ہیں) میں رہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا خاندان برطانوی راج کے دور سے اس گاؤں میں رہائش پزیر ہے۔ ان کی 504 ایکڑ آبائی زمین کئی دہائیوں سے ان کے خاندان کی ملکیت ہے، جس پر بارانی زراعت، کھجور اور پھلوں کے درخت ہوا کرتے تھے۔ ان کے خاندان کی کفالت اسی اراضی پر ہوتی تھی۔ کچھ سالوں سے ان کے بیٹوں نے پولٹری فارم بھی بنایا تھا، جس سے ان کا گزر بسر ہوجاتا تھا۔

روزی گبول نے کراچی پریس کلب میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’چند سال پہلے، بعض لوگ آئے اور ہماری زمین پر قبضہ کرلیا، بعد میں پتا چلا کہ ہمارے گاؤں کے پاس بحریہ ٹاؤن بن رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کی آبادی کو چھوڑ کر باقی ساری زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے ان کی آبائی زمین کا کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا۔ روزی کا دعویٰ ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن میں یہ جو دنیا کی تیسری بڑی مسجد تعمیر کی جا رہی ہے، وہ میرے خاندان کی آبائی زمین ہے۔‘

روزی گبول کے نوجوان بیٹے شوکت گبول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ صرف ان کے خاندان کی کہانی نہیں بلکہ یہاں صدیوں سے آباد ہر باشندے کی کہانی ہے۔ حال ہی میں بحریہ ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے مبینہ طور پر ہمارے گاؤں کی 200 ایکڑ زمین پر قبضہ کیا، مزاحمت پر ہمارے گاؤں کے چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ ہمارے گاؤں کی آبادی والے حصے پر ہم نے عدالت سے حکم امتناعی لیا، مگر بحریہ ٹاؤن والے کہتے ہیں کہ وہ کسی حکم امتناعی کو نہیں مانتے۔ اب ہم کہاں جائیں؟‘

چند سال قبل جب مقامی لوگوں نے اس کمپنی کے جانب سے زمینوں پر غیرقانونی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا تو نور محمد گوٹھ کے رہائشی 90 سالہ بزرگ فیض محمد گبول نے، جو حال ہی میں انتقال کرچکے ہیں، اس تحریک کی قیادت کی۔ کئی مقامی لوگ دھمکی، کیس اور تشدد سے تنگ آکر اپنی آبائی زمینیں بحریہ ٹاؤن کو فروخت کر رہے تھے، تب فیض محمد گبول نے اپنی زمین بحریہ ٹاؤن کو بیچنے سے انکار کر دیا۔ ان کے بیٹوں پر کئی مقدمات بنے لیکن فیض محمد گبول اپنی بات پر ڈٹے رہے۔

فیض محمد گبول کے بیٹے مراد بخش گبول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب دھمکیوں، جھوٹے مقدمات اور مراعات کے باجود انہوں نے زمین بیچنے سے انکار کر دیا تو ایک دن ملک ریاض خود چل کر ہمارے گھر آئے، کئی مراعات کے ساتھ، ایک خالی چیک دینے کی پیشکش کی اور کہا کہ جتنا پیسہ چاہو اس چیک پر لکھو، رقم نکالو اور اپنی زمین مجھے دے دو، تو میرے والد فیض محمد نے ان سے پوچھا کہ آپ کی ماں زندہ ہے، ملک نے جواب دیا نہیں، تو میرے والد نے کہا یہ زمین میری ماں ہے، جس کا سودا کرنے کی لیے تم نے اس کی قیمت لگائی۔ اس پر ملک ریاض نے سر جھکالیا اور چلے گئے۔ مگر بعد میں ملیر ضلع کی پولیس نے ہماری کل 100 ایکڑ زمین میں سے 50 ایکڑ پر قبضہ کر لیا۔'

کراچی پریس کلب میں انڈیجنیئس رائٹس الائنس کی جانب سے منقعدہ پریس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہوئے بحریہ ٹاؤن، کراچی سے متصل قدیمی گوٹھوں کے رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ اخبارات اور نجی ٹی وی چینل کے نمائندے آتے ہیں، ان سے تفصیلات لیتے ہیں لیکن بعد میں ان کے مطالبات کو شائع تک نہیں کرتے۔ اس اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے صدر عوامی ورکرز پارٹی اور انڈیجنیئس رائٹس الائنس کے مرکزی رہنما یوسف مستی خان نے الزام عائد کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے پولیس کی مدد سے آس پاس موجود قدیمی گوٹھوں کی زمینوں پر مبینہ طور پر قبضہ کیا۔ یوسف مستی خان نے کہا کہ اس کیس میں انہیں بڑی امید تھی کہ سپریم کورٹ مقامی لوگوں سے انصاف کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ میں ایک آکشن ہوا، جو اس سے پہلے ہم نے دنیا کی کسی عدالت میں نہیں دیکھا کہ مجرم کھڑا ہے، اس کو یہ کہنے کی بجائے کہ تم مجرم ہو، تم نے قبضے کیے ہیں، نیب کو کہا جاتا کہ ان کے خلاف تحقیق کرو، اس کے برعکس ان سے کہا گیا کہ کتنے پیسے دو گے اپنے آپ کو قانونی بنانے کے لیے، 460 ارب روپے پر سودا ہوا، اگر سپریم کورٹ میں سودے ہونے لگے تو پاکستان کا عام آدمی، انصاف کے لیے کہاں جائے گا؟ 460 ارب روپے کے بدلے سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو اجازت دے دی کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔‘

یوسف مستی خان نے مزید کہا کہ، وہ انڈیجنیئس رائٹس الائنس کے پلیٹ فارم سے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست داخل کرنے جا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔

اس موقع پر موجود سندھی قوم پرست رہنما اور انڈیجنیئس رائٹس الائنس کی نمائندگی کرنے والے عبدالخالق جونیجو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے مطالبہ کیا کہ چونکہ بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ بقول ان کے غیرقانونی ہے، لہذا اس منصوبے کو منسوخ کیا جائے اور جتنی بھی زمین ریونیو بورڈ سندھ کی ہے اس کو واپس کی جائے۔ مقامی لوگوں کی زمین ان کو واپس کی جائے، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ گورنمٹ کے خلاف کارروائی کی جائے، جنہوں نے یہ غیر قانونی کام کیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ان الزامات کے سلسلے میں ردعمل لینے کے لیے بحریہ ٹاؤن سے کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا، تاہم سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف تین مقدمات میں اس نے موقف اپنایا کہ ’بحریہ ٹاؤن زمین کی رقم ادا کرنے کو تیار ہے‘، بعد میں عدالت میں طے پایا کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم سات سالوں میں ادا کرے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت