مالکوں کے بعد ان کی پرانی چیزیں سکون سے مرنے کہاں جاتی ہیں؟ 

پانچ ایسی چیزیں جو اپنے مالکوں کی وفات کے بعد آج ہم سے تصویری ملاقات کریں گی۔

کے آر ہیلے گلاس ورکس کمپنی  کی 1930 میں بنی شیشے کی گدھا گاڑی۔تصویر: حسنین جمال

یہ تصویریں کھینچے کئی دن ہو گئے تھے۔ کبھی سوچتا تھا کہ صرف فوٹو گیلری لگا دوں۔ کبھی خیال آتا کہ تصویر کہانی کے نام سے موجود سلسلے میں یہ تبرک بھی پیش کر دیا جائے۔ کبھی سوچتا کہ یار ایسی بھی کیا خود نمائی۔ بس ٹھیک ہے، تصویریں کھینچ لیں، کونے میں رکھو، ٹک دیکھ لو، دل شاد کرو اور چل نکلو۔ مری ہوئی چیزوں کی نمائش کیا اور کیا ان کی تماش بینی؟ آخر ایک سوئیٹ سردار جی ایسے بھی تو تھے جنہوں نے سوئمنگ پول بنا کر اسے صرف اس لیے خالی رکھ چھوڑا تھا کہ بندے کا دل کبھی نہانے کو نہیں بھی کرتا! 

تو کیا ضروری ہے کہ جو سوچا جائے اسے پورا بھی کیا جائے؟ دیے کی جھلملاتی  لو کی طرح ان ہی چہ کنم ارادوں میں ایک نیا سین ہو گیا۔ انسٹاگرام پہ انگوٹھا چلاتے چلاتے مائنک آسٹن صوفی کی بنائی ایک تصویر دکھائی دی اور اس پر موجود ٹائٹل ساتھ میں پڑھ لیا۔ ضروری نہیں کی جو کیفیت فقیر کی ہو اس کا سامنا آپ بھی کریں۔ پرانے زمانے میں کسی راہ چلتے اللہ لوک کا ایک نعرہ مار کے چادر اوڑھنا اور راستے میں ہی لیٹ کے مر جانا ہمیں اس لیے سمجھ نہیں آ سکتا کیوں کہ وہ گداز اور وہ کیفیت ہمیں میسر نہیں۔ تو بس وہ جو بھی تصویر تھی اس پہ ایک نظر کریں اور کیپشن پر توجہ دیجیے: ’مالکوں کے انتقال کے بعد ان کی پرانی چیزیں سکون سے مرنے کے لیے کہاں جاتی ہیں؟‘

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Where Do Old Possessions Go to Die After Their Owner’s Death? #possessions

A post shared by Mayank Austen Soofi (@thedelhiwalla) on

بس تب ہی اس فقیر نے سوچا کہ اے حسنین جمال، اس وقت تو بھی مالک ہے ان چیزوں کا اور بے شک کہ ایک روز تجھے بھی مر جانا ہے، اور تب کہ جب تیرے یہ اثاثے لاوارث ہوں پیشتر اس گھڑی کے، تجھے چاہیے کہ تو چھوڑ جائے چند تصویریں اور مقدور بھر صفت ان کی، کہ بے شک ہر جان دار کو زوال ہے اور ہر بے جان بھی فنا ہونے والا ہے۔ 

اب یہاں جو تصویریں نیچے گیلری میں پیش کی گئی ہیں ان کے مالک کب کے مر مرا گئے۔ کسی کا مالک اگر کہیں زندہ بھی ہوگا تو غریب اس حال میں ہوگا کہ یا تو بچوں نے والد صاحب کا سارا کاٹھ کباڑ بیچ دیا اور یا پھر ابا جی خود ساری عمر شوق پر پیسے خرچ کر کر کے کنگال ہوگئے تو اپنے نوادرات برائے فروخت کر دیے۔

نوادرات جمع کرنے کا شوق ایک لت ہے۔ ایک شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ بیوی بچوں کا حق مار کے پرانے مجسمے، لائٹر، بلوری برتن، پتھر یا کچھ بھی الم غلم خریدے۔ پھر بھی اگر خود پہ قابو نہ ہو تو انسان اپنے سے پہلے والے کلیکٹرز پر غور کرے کہ اس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ 

یہ ایک گدھا گاڑی ہے۔ اس کی بناوٹ میں تھوڑا کھردرا پن موجود ہے۔ شیشہ کچھ موٹا سا ہے۔ جیسے ہماری نانی دادی کے زمانے میں شیشے کے برتن ہوتے تھے، تھوڑے موٹے سے، بس اس طرح کی ایک چیز ہے لیکن کمال خوبصورتی سے بنی ہوئی۔

کے آر ہیلے گلاس ویئر کے نام سے ایک کمپنی ہوتی تھی، امریکن گلاس کمپنی۔ یہ شیشے کی گدھا گاڑی انہوں نے بنائی تھی۔ گمان ہے کہ یہ کمپنی 1939 سے 1945 تک موجود رہی اور پھر ختم ہو گئی۔ اس کے مالک کا نام کینیتھ ہیلے تھا جو شیشے کی ظروف سازی میں اپنے وقت کا ایک بڑا نام تھا۔ گدھا گاڑی کی یہ صنعت ’ٹیبل ویئر‘ میں شمار کی جاتی ہے۔

اس کے پیچھے جو چھکڑا سا ہے اس میں اتنی جگہ موجود ہے کہ بچوں کے لیے اس میں ٹافیاں رکھی جا سکیں یا مہمانوں کے لیے کوئی بھی مکس ڈرائی فروٹ اس میں بھر کے رکھ دیا جائے۔ آپ زیادہ زرخیز دماغ کے مالک ہوں تو رنگین پانی یا کچھ بھی اس میں بھر کے رکھا جا سکتا ہے۔

اس کا سائز لمبائی میں تقریباً دس انچ، چوڑائی میں تین انچ اور اونچائی میں شاید ساڑھے چار انچ کے آس پاس ہوگا۔ عجیب پُرکشش سا ڈیکوریشن پیس ہے۔ اسے کسی ایسی جگہ رکھ دیں جہاں روشنی اس کے اوپر سے پڑ رہی ہو تو نظارہ اور بھی دلکش ہو جاتا ہے۔ 1940 کی دہائی میں بنی یہ بلوریں گدھا گاڑی انگریز کی مہارت کا حرف آخر ہے۔ باقی سب تعریفیں اس ذات پاک کے لیے جس نے انگریز کو بھی بنایا۔ 

موراکامی نے اپنے ناول IQ84 کے شروع میں کہیں لکھا کہ جب اس کا ہیرو کسی سے ملنے گیا تو وہاں شیشے کی ایک میز پہ پرانی طرز کا ٹیبل لائٹر پڑا ہوا تھا۔ اب ہاروکی موراکامی بادشاہ آدمی ہے۔ جاپانی مصنف ہے اور کمال باریک بین ہے۔ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ ٹیبل لائٹر کی تفصیلات نہ بتاتا؟ سب کچھ بتایا لیکن پھر بھی ایک ایسا بندہ جس نے ٹیبل لائٹر نہ دیکھا ہو وہ جڑ تک پہنچ نہیں پاتا۔ اور زندگی کرنے کے ڈھنگ میں بے شک ٹیبل لائٹر کی اہمیت بھی کچھ ایسی خاص نہیں کہ اگر اسے نہ دیکھا ہو تو بندہ جیسے بے علما ہی مر جائے گا۔ پھر بھی، اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک خالص اصلی نسلی ٹیبل لائٹر کیسا ہوتا تھا تو وہ ایسا ہوتا تھا۔

یہ رونسن کمپنی کا بنایا ہوا ٹیبل لائٹر ہے۔ 1936 میں اسے کوئین این کے نام سے مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ یہ لیکوئیڈ فیول سے جلنے والا لائٹر ہے۔ اس کے نیچے ایک پیچ سا ہے۔ اسے گھما کے ہٹائیں اور اس کے اندر ایندھن ڈال دیں۔ اندر موجود کپاس ٹائپ کا جذب کرنے والا میٹریل اچھا بھلا لیکوئڈ محفوظ کر لے گا۔ پیچ بند کریں اور تمباکو نوشی شروع کر دیں۔ چوں کہ 2019 میں ایسا کچھ لکھنا بھی مضر صحت ہے اس لیے یاد رکھیں کہ تمباکو نوشی بہرحال ایک ایسی گندی عادت ہے جس سے بچانے کے لیے حکومت آپ کی سگریٹ کی ڈبیوں پر انتہائی بھیانک سی تصویریں بنانا نہیں بھولتی۔ تو یہ جو کوئین این لائٹر تھا، یہ ایسا سوپر ہٹ تھا کہ اس کی ایک نقل بھی مارکیٹ میں آئی تھی۔ اس تصویر میں آپ وہ نقل دیکھ رہے ہیں۔ نیچے والی تصویر میں اصلی رونس کوئین این ٹیبل لائٹر کے درشن کیجیے۔ 

رونس کمپنی ایک امریکی کمپنی تھی۔ اس زمانے میں اس کی نقل جاپان کیا کرتا تھا جیسے آج کل ساری دنیا میں چین کا بنا نقلی (بمطابق اصل) مال برائے فروخت ہوا کرتا ہے۔

چونکہ ٹیبل لائٹر خالصتاً امیروں کے استعمال کی چیز تھی اس لیے کم از کم یہ سلور پلیٹڈ (چاندی کا پانی چڑھا ہوا) ہوا کرتا تھا اور زیادہ سے زیادہ میں گولڈ پلیٹڈ یا علی ھذا القیاس۔ 50 کی دہائی کے بعد رونسن نے خالی لائٹر بیچنے کی بجائے ساتھ میں سگریٹ کیس، ایش ٹرے اور دیگر لوازمات بھی پیش کرنے شروع کیے۔

وہ بھی اپنے وقت کی ڈیلیکیسی میں شمار ہوا کرتے تھے۔ 

سوچیے کہ آپ صبح صبح دفتر آئے ہیں۔ کسی کو خط لکھنا ہے۔ اس پر آج کی تاریخ ڈالنی ہے۔ ڈال دی تاریخ اور لکھ لیا خط۔ اب جو سب کچھ کر لیا تو اچانک یاد آیا کہ یہی تاریخ تو کل بھی تھی۔

ایسی غلطی اس وقت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی جب پرانے وقتوں میں دفتروں کی میز پر ایسے فلپنگ کیلنڈر ہوا کرتے تھے۔ جب تک آپ خود اس کی مُنڈی نہیں گھمائیں گے تاریخ نہیں بدلنے والی۔ اسی طرح مہینے اور دن کو بدلنے والی کلیں بھی الگ سے ہیں۔ یہ کیلنڈر عموماً 1950 سے 1960 کے درمیان جاپان میں بنائے جاتے تھے اور پوری دنیا میں اپنی نازکی اور نفاست کی وجہ سے پسند کیے جاتے تھے۔

ڈھائی انچ چوڑا اور تقریباً ساڑھے تین انچ لمبا یہ کیلنڈر سپیس ایج سے متاثر نظر آتا ہے۔ 1950 کی دہائی میں جب دنیا نے چاند تک جانے کے منصوبے بنائے تو ہر چیز اڑن طشتریوں کے سے گول مول ڈیزائن میں آنے لگی۔ ان دنوں گھڑیاں، گاڑیاں، برتن، فرنیچر الغرض سبھی کچھ سپیس ایج ڈیزائن سے شدید متاثر نظر آتے تھے۔

انگشتانہ ہوتا کیا ہے؟ ہوتا تو یہی ہے جو اس تصویر میں نظر آ رہا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

اسے اک چھوٹی سی ٹوپی سمجھ لیجیے جو سلائی کڑھائی کرتے ہوئے انگوٹھے یا انگلیوں پر چڑھائی جاتی ہے۔ اسے پہننے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سوئی کا پچھلا حصہ انگلیوں میں نہ چبھے۔

ہماری دادیوں نانیوں کے زمانے میں عجیب بے سرے قسم کے انگشتانے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی انہی کی ترقی یافتہ شکل کبھی کبھار نظر آ جاتی ہے۔

اس تصویر میں جو انگشتانے نظر آ رہے ہیں یہ 60، 70 برس قبل چینی دادیوں اور نانیوں کے زیر استعمال رہتے ہوں گے۔ چمکدار روغن اور خوبصورت رنگوں والے یہ انگشتانے بھی اب کلیکٹرز کی توجہ کا مرکز ہیں۔ جیسے منی ایچر تصویریں بنائی جاتی ہیں اسی طرح ان انگشتانوں پر موجود آرٹ بھی منی ایچر ہی کی ایک قسم ہے۔ انہیں انٹرنیٹ پر ڈھونڈنا ہو تو انگریزی میں Chinese Thimble ٹائپ کر لیجیے۔

پان لگ لگ کے میری جان کدھر جاتے ہیں
یہ میرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں

دلی لکھنؤ میں آج سے 80، 90 سال پہلے رکشے ہوتے تو ان کے پیچھے یہ شعر سونے کے پانی سے لکھا جاتا۔ اس زمانے کے پان دانوں پہ بہرحال اس شعر کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔

پان جب لپٹ لپاٹ کر مکمل تیار ہو جاتا تو وہ گلوری کہلاتا تھا۔ گھر آئے مہمان کو پان کی گلوری پیش کرنا عین ویسے ہی تہذیب میں شامل تھا جیسے کچھ عرصہ قبل روح افزا اور آج کل پیپسی کوک پیش کیے جاتے ہیں۔ تو ایک سنگل پان کی گلوری جس پریزنٹیشن میں کسی کے سامنے رکھی جاتی تھی اس کا اہم ترین جز خاصدان ہوا کرتا تھا۔

تصویر میں نظر آنے والا گنبد کی شکل کا یہ خاصدان  تانبے کا بنا ہوا ہے۔ اس کے اوپر موجود باریک نقش و نگار اس کے اچھے شجرے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اس خاصدان میں گلوری رکھ کے ساتھ ناریل وغیرہ کی ہوائیاں بھی چھڑکی جاتی تھیں۔ اچھی طرح ڈیکوریشن بنانے کے بعد اس کو اپنے گنبد نما کور سے ڈھکنے کے بعد مہمان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی