تاریخ کی دوسری بدترین ایبولا وبا میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک

افریقہ کے ملک ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں جاری وبا نے دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

2

ڈی آر کانگو کے شہر بوٹیمبو میں ہیلتھ ورکرز ایبولا سے ہلاک ہونے والے ایک شخص کی لاش کو لے کارہے ہیں۔ تصویر: روئٹرز

افریقہ کے ملک ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر کانگو) میں جاری ایبولا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

ہلاکت خیزی کے لحاظ سے اِسے تاریخ کی دوسری بدترین وبا قرار دیا جا رہا ہے اور ڈی آر کانگو کے وزیرِ صحت اولے اِلونگا نے کہا ہے کہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اس جان لیوا وائرس سے اب تک ایک ہزار آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خانہ جنگی اور عوام میں عدم اعتماد کے احساس نے اس قدامت پرست ملک میں اس خطرناک وبا پر قابو پانے کی کوششوں کی رہ میں روکاوٹ ڈل رکھی ہے۔

حالانکہ یہ وبا 2014 سے 2016 کے درمیان مغربی افریقہ کے ممالک گنی، سیرا لیون اور لائبیریا میں ہونے والی وبا کی جیسی سنگین نہیں ہے جس میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی ڈی آر کانگو میں اس وبا کی حقیقی صورتحال صاف ظاہر نہیں ہے۔

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی جانب سے ایبولا کے بحران کے لیے قائم کیے گئے ایمرجنسی ادارے کے ڈائریکٹر طارق ریبل نے کہا:’حقیقتاً متاثرہ افراد کی تعداد دوگنا بھی ہو سکتی ہے، جن کے بارے میں ہم ابھی نہیں جان پائے ہیں۔‘

اس وائرس کے ڈی آر کانگو سے پڑوسی مملک یوگینڈا اور روانڈا یامزید افریقی علاقوں میں پھیلاؤ کے شدید خطرے کے باوجود اپریل میں عالمی ادارہِ صحت نے اسے عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال قرار دینے کے اعلان سے گریز کیا۔

ایبولا کیا ہے؟

ایبولا ایک غیر معمولی اور مہلک وائرس ہے جو بخار، جسم کے درد اور اسہال کا سبب بنتا ہے اوربعض اوقات اس میں جسم میں اندرونی اور بیرونی طور پرخون جاری ہو جاتا ہے۔

جیسے جیسے یہ وائرس جسم میں پھیلتا ہے یہ جسم کے مدافعاتی نظام پر حملہ آور ہو کر اعضاء کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ بالآخر اس سے خون کے کلاٹنگ خلیات کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی اور نہ روکنے والی بلیڈنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ویب سائٹ ویب ایم ڈی کے مطابق، ایبولا وائرس سے متاثرہ 90 فیصد لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ڈی آر کانگو میں اس سنگین صورتحال کے باوجود ملک بھر میں صحت کے مراکز پر حملے جاری ہیں جس کے بعد بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے ملک کے متاثرہ علاقے جیسے کاٹوا اور بوٹیمبو سے اپنے عملے کو واپس بلا لیا ہے جبکہ حکومت تنہا اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہے۔

گذشتہ ماہ عالمی ادارہِ صحت کے لیے کام کرنے والے کیمرون کے ایک ماہرِ صحت کو بوٹیمبو شہر کے ہسپتال پر حملے کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔

عالمی ادارہِ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل رائین نے جمعے کوجنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ڈی آر کانگو میں سیکورٹی کی بدتر صورتحال ایبولا کی وبا کو کنٹرول کرنے کی کوششیوں میں ’بڑی رکاوٹ‘ ثابت ہو رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنوری سے اب تک ڈی آر کانگو میں 119 ایسے واقعات پیش آچکے ہیں، جن میں صحت کے مراکز پر 42 حملے شامل ہیں۔ ایسے واقعات میں 85 ہیلتھ ورکرز یا تو ہلاک ہوئے ہیں یا زخمی۔

علاقے میں درجنوں مسلح باغی تنظیمیں سرگرم ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی باہمی دشمنیاں بھی بہت سے لوگوں کی جانب سے ہیلتھ ورکز کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی وجہ ہیں۔  

مائیکل رائین نے کہا: ’ہمیں جب جب اس وائرس کو کنٹرول کرنے یا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات میں کامیابی ملی ہے، سیکورٹی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے اس وبا کے مزید پھیلاؤ کے خدشے کا اظہار بھی کیا جو افریقہ سے نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایبولا کی اس وبا کے زیادہ تر کیسیز مشرقی کانگو میں دیکھے گئے ہیں جبکہ سرحد کے نزدیک اس انتہائی گنجان آباد اور کثیر آبادی علاقے میں کیسیز بڑھ  رہے ہیں۔

ان علاقوں میں بہت سے متاثرہ لوگ ایبولا کے علاج کے مراکز میں جانے سے گھبرا رہے ہیں اور وہ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے یہ وائرس ان کے خاندان کے دیگر افراد اور پڑوسیوں کو منتقل ہونے کا شدید خدشہ ہے۔

24 سالہ ویانے موساولی نے کہا کہ بوٹیمبو کے رہائشیوں کا مننا ہے کہ ایبولا ان کے شہر میں جان بوجھ کر لایا گیا ہے۔ ’میں یہ جان کر افسردہ ہوں کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ ایبولا ایک سیاسی چیز ہے اور اسی لیے لوگ  ابھی تک ہیلتھ ٹیموں پر حملہ کر رہے ہیں۔‘

سیکورٹی کی بدتر صورتحال کے باعث اکثر ویکسین ٹیمیں ان علاقوں میں جانہیں پائیں ہیں جس سے وبا سے نمٹنے کے مواقعے مزید محدود ہو گئے ہیں۔

اس سب کے باوجود ایک لاکھ نو ہزار سے زائد افراد کو ایبولا کے تجرباتی لیکن مؤثر حفاظتی ٹیکے لگا دیے گئے ہیں۔

مائیکل رائین نے کہا کہ حکام ایک اور دوا کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید مالی مدد کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کو وبا کی روک تھام کے لیے اب بھی 54 لاکھ ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ