مہوش حیات، سارہ خان جیسی سلیبرٹیز کی مدد کرنے والے نوجوان

بلوچستان کے ضلع خاران سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ حارث بلوچ نے مشہور شخصیات کو برانڈ مینجمنٹ، سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور پروموشن وغیرہ میں مدد فراہم کرکے اپنا نام کما لیا ہے۔

حارث کے مطابق وہ  شوبز کے اداکاروں کو ٹیلی ویژن پر دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اور  انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی ان سے رابطہ بھی کرسکیں گے۔  (تصاویر:  حارث بلوچ)

’یہ میرے تصور سے بھی بالاتر تھا کہ کبھی میں کسی شوبز سٹار سے رابطہ کرسکوں گا کیونکہ میں بلوچستان کے جس ضلعے میں رہتا ہوں وہاں ہم صرف ان کو ٹی وی پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع خاران سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ نوجوان حارث بلوچ کا جو سلیبرٹیز اور دیگر مشہور شخصیات کو ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے مسائل حل کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ ان کا ادارہ ’رفیاکو میڈیا‘ ستاروں اور سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات کو برانڈ مینجمنٹ، سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور پروموشن وغیرہ میں مدد فراہم کرتا ہے اور ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ اب تک اداکارہ مہوش حیات اور سارہ خان، موسیقار فلک شبیر، وی لاگر انیتا جلیل اور باکسر وسیم سمیت کئی یوٹیوبرز کو سوشل میڈیا کے حوالے سے مدد فراہم کر چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’یہ گذشتہ سال کی بات ہے کہ مجھ سے ایک یوٹیوبر نے رابطہ کرکے اپنا ایک مسئلہ حل کرنے کو کہا۔ ان کا کام کرنے کے بعد انہوں نے معروف اداکارہ مہوش حیات کے بھائی سے رابطہ کروایا کہ ان کو بھی بعض مسائل کا سامنا ہے۔‘ 

’میں نے نہ صرف مہوش حیات کے بھائی کی مدد کی بلکہ انہوں نے بعد میں مجھ سے مہوش کے ٹک ٹاک کی ویری فکیشن بھی کروائی۔‘ 

حارث بلوچ کی کہانی اس لحاظ سے بھی دوسروں سے الگ ہے کہ وہ ایک پسماندہ صوبےکے دور دراز علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں کے لوگ یہ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ کوئی ان جیسا کام کرسکیں گے۔ 

 حارث نے ابتدائی تعلیم خاران سے حاصل کی اور انہیں کمپنی سیندک میٹلز کی جانب سے سکالرشپ ملی جس کی وجہ سے انہیں آرمی برن ہال کالج ایبٹ آباد میں پڑھنے کا موقع ملا۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو شوبز کے اداکاروں کو ٹیلی ویژن پر دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی ان سے رابطہ بھی کرسکیں گے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کام میں مہارت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کسی ادارے سے تربیت نہیں لی بلکہ یہ سب گوگل اور یوٹیوب پر ویڈیوز کے ذریعے تربیت دینے والے ماہرین سے سیکھا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر مشہور ہوجاتے ہیں چاہے وہ شوبز سٹارز، اداکارائیں اور گلوکار ہوں، ان کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں اکثر اکاؤنٹ کا ہیک ہونا اور ویری فکیشن نہ ہونا شامل ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوجائے تو اس سے شوبز کے ستاروں کے فالورز کی تعداد کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں کسی بھی شوبز کے ستارے کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے منسلک ہونا ناگزیر ہے اور ہر ایک کی جنگ ہوتی ہے کہ کس کے پاس سب سے زیادہ فالورز ہیں۔ ’ایسے میں اگر کسی کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو وہ اس کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو وہ کسی ماہرکے بغیر واپس ہونا ناممکن ہوجاتا ہے اور ہیکنگ پاکستان سے باہر بیٹھے بعض لوگ کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 شوبز کے ستاروں کو جہاں سوشل میڈیا پر شہرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں وہ نقلی پیجز سے بھی پریشان رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی حارث مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ انہیں اکاؤنٹ ویری فائی کروا کے دیتے ہیں۔  

حارث نے بتایا کہ ویری فکیشن کا حصول کسی سوشل میڈیا کےماہر کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ہے۔ 

جب حارث جیسے لوگ نہیں تھے تو پاکستان کے شوبز کے ستارے، گلوکار اور یوٹیوبرز اپنے مسائل کے حوالے سے بھارت میں افراد سے رابطہ کرتے تھے، جہاں سے نہ صرف ان کو طویل عرصہ انتظار کی ذہنی کوفت کا سامنا رہتا بلکہ انہیں تین سے چار ہزار ڈالر بھی ادا کرنے ہوتے تھے۔  

حارث نے بتایا: ’ایک بار ایسا ہوا کہ ایک مشہور گلوکار نے مجھے بتایا کہ ان کا پیج ہیک ہوا اور انہوں نے بھارت میں ماہرین میں سے ایک سے رابطہ کیا۔ پہلے تو ماہر نے وقت پر پیسے منگوائے اور بعد میں کام طویل ہوتا گیا اور بار بار کے رابطوں کے باوجود سٹار کو بہت تنگ کیا گیا اور بہت عرصے کے بعد ان کا مسئلہ حل ہوا۔‘ 

حارث نے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے کی وجہ سے جو چیز ان کے ہاتھ سے چلی گئی اس کا افسوس انہیں آج تک ہے۔ 

 سوشل میڈیا پر کسی پیج کے فالورز کو ایک بڑی تعداد تک پہنچانا مشکل کام ہے۔ حارث نے بتایا کہ ایک بار سال 18-2017 کے دوران انہوں نے ایک پیج بنایا تھا جس کے فالورز کی 15 لاکھ تک چلی گئی تھی۔ 

’اس دوران نہ جانے کس طرح یہ پیج ڈیلیٹ ہوگیا اور بہت کوشش کے بعد بھی مجھے وہ واپس نہ مل سکا، جس کے لیے میں نے فیس بک انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی جواب دیا کہ پیج انہوں نے ڈیلیٹ کردیا ہے۔‘  

حارث کے مطابق: ’یہ ایک جنونی کام ہے اور مجھے اس میں بہت عرصہ لگا، دن رات ایک کرنے پڑے تب جاکر میں اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہوا اور میں نے دوسروں کے مسائل کو حل کرنا شروع کیا۔‘

 جہاں لوگ سوشل میڈیا کے پروموشن اور ویری فکیشن کے ہزاروں ڈالر چارجز لیتے ہیں، وہیں حارث شوبز کے ستاروں اور ان جیسے دوسرے مشہور لوگوں کے کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ہیں۔  

حارث نے بتایا کہ چونکہ ان کا مقصد اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے اس لیے انہوں نے معاوضہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اخراجات کیسے پورا کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے پاس کچھ ایسے پیجز ہیں جن کے لائیکس کی تعداد لاکھوں میں ہے، جس سے آمدنی ہو جاتی ہے۔

 وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ سوشل میڈیا کے حوالے سے کام کررہے تھے تو ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اور پیج کو پروموٹ بھی کرنا ہوتا تھا۔ پھر والد کی طرف سے دیے گئے جیب خرچ کے پیسے پروموشن پر خرچ کردیتے تھے۔ 

ابھی تو اپنے ادارے کے ذریعے ستاروں کو سوشل میڈیا مسائل حل کرکے دے رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ وہ میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری بھی کررہے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں سوشل میڈیا کے مسائل حل کرنے کے ساتھ لوگوں کی صحت کے مسائل بھی حل کرسکیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل