کیا کتاب کی ڈیل کے لیے سوشل میڈیا فالورز ضروری ہیں؟

پبلشر اب اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کتاب لکھنے والوں کی سوشل میڈیا فالونگ کتاب کی فروخت پر کیا اثر ڈالے گی۔

تصویر: آئی سٹاک/  دی انڈپینڈنٹ

لکھاریوں کو اس بات کا ادراک ہو رہا ہے کہ پبلشر سے کتاب کی ڈیل کرنے کے لیے آن لائن فالورز ہونا بھی ایک اہم شرط ہے۔

کہا جاتا ہے ہر انسان کے اندر ایک کتاب موجود ہے، لیکن کیا ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ کتاب کی ڈیل حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے؟ ایک اچھے تصور کے ساتھ لکھنے کا فن، وقت اور لگن کتاب لکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں، لیکن 2019 میں یہ سب ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر فالورز ہونا بھی ایک اہم شرط ہے۔ ’پنچ آف نوم‘ کو ہی دیکھ لیں، کھانوں کی تراکیب کی یہ کتاب کے فیدرسٹون اور کیٹ ایلیسن نے لکھی ہے، تین دن میں اس کتاب کی 2 لاکھ 10 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔

اس کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے بھی پہلے ’پنچ آف نوم‘ برطانیہ کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والے کھانوں کا بلاگ تھا، ایک اور اہم عنصر ان دونوں شخصیات کی فیس بک گروپ پر 8 لاکھ سے زیادہ فالونگ تھی جہاں پر ان کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی کھانے کی تراکیب بڑی تعداد میں شئیر کی جاتی تھیں، اس کے علاوہ ان کے فیس بک پیج پر بھی 14 لاکھ لوگ ان کی پوسٹس کو لائیک کر چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس لیے بھی حیران کن ہیں کہ 2016 تک یہ دونوں لکھاری فیس بک گروپ پر موجود نہیں تھے۔

سوشل میڈیا پر مشہوری کے بعد کتابوں کی ڈیل ملنے کا سلسلہ یوٹیوب کی جانب سے شروع کیا گیا۔ چند سال قبل پاپولر وی لاگرز کو کچھ ڈیلز ملیں۔ زویلا المعروف زوی سنگ نے 24 سال کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا۔ پہلے ہفتے ہی ان کی کتاب نے ہیری پورٹر اور ففٹی شیڈز آف گرے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لیکن 2017 میں پبلشرز کی جانب سے یہ شکوہ کیا گیا کہ یو ٹیوب کی مارکیٹ میں اب مزید گنجائش نہیں رہی۔ برطانیہ میں الیکٹرانک کتابوں کی فروخت مایوس کن تھی جبکہ بیرونی مارکیٹ میں بھی یہ کاروبار زوال پذیر تھا۔

ہیڈ لائن پبلشر کی ایڈیٹر اینا سٹیدمین نے اس رجحان کو ’یو ٹیوب گولڈ رش‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلشر اب اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کتاب لکھنے والوں کی سوشل میڈیا فالونگ کتاب کی فروخت پر کیا اثر ڈالے گی۔ انسٹا گرام پر آپ کے ڈھائی لاکھ فالورز ہو سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں یہ کتاب کی فروخت پر بھی اثر انداز ہوں۔ انسٹاگرام پر لوگ زیادہ تر تصاویر دیکھتے ہیں اور زیادہ اظہار نہیں کرتے لیکن بعض اوقات ٹوئٹر اور فیس بک پر نسبتاً کم فالونگ بھی زیادہ لوگوں کو مائل کر سکتی ہے۔ یوٹیوب پر بلاگرز کی مشہوری نے اس رجحان کو تقویت دی ہے۔ کم عرصے میں فیس بک پر اچھی فالونگ رکھنے والے افراد نے یوٹیوب پر بھی بہت فالونگ حاصل کی ہے۔

پبلشرز اور ایجنٹس سوشل میڈیا فالونگ کو مد نظر رکھ کر بک لانچ سے پہلے کافی حد تک مارکیٹ کو بھانپ لیتے ہیں لیکن اگر کوئی لکھاری پہلے ہی ہلچل پیدا کر لیتا ہے تو سوشل میڈیا فالونگ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ یہ ڈیل حاصل کر سکتا ہے۔

ایک ایسے دور میں جب آپ ٹوئٹر فالوورز خرید سکتے ہیں اور جہاں فیس بک پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ویڈیوز کے اعداد وشمار کو بڑھا کر پیش کرتی ہے پبلشر بڑے نمبرز کو یوں آسانی سے تسلیم نہیں کرتے۔ جیسا کہ سٹیدمین کہتی ہیں کہ وہ تعداد کے مقابلے میں معیار ہی دیکھتے ہیں۔ یہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے جو کبھی پنچ آف نوم جیسی کتاب لکھ کر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا کے اعداد وشمار اہم تصور کیے جاتے ہیں۔

الیکس ہولڈر جنہوں نے حال ہی میں اپنی پہلی نان فکشن کتاب ’اوپن اَپ: پیسے کے بارے میں بات کرنے کی اہمیت‘ لکھی ہے کہتی ہیں کہ ایک ایدیٹر نے ان کی کتاب اس وجہ سے رد کر دی کہ ٹوئٹر پر ان کے فالورز 4 ہزار سے کچھ زیادہ تھے۔ اس کی وجہ کتاب کا آئیڈیا  مارکیٹ یا لکھنے کی صلاحیت نہیں تھی، بلکہ اس کی وجہ میرے سوشل میڈیا پر ناکافی فالورز تھے۔ ان کو ’ثابت شدہ حاضرین‘ کہا جاتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ اپنی مشہوری کا ہر ممکن ثبوت فراہم کروں اگر میں کبھی کسی ٹی وی پروگرام میں آئی ہوں یا کسی جگہ میرا نام لیا گیا ہو تاکہ پبلشر کی جانب سے مجھے کسی قسم کا مثبت جواب دیا جا سکے۔ ہولڈر آخرکار ایک ڈیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب