شوکت علی: ڈیسک پر طبلہ بجانے والا ’گلوکاری کا سادھو‘

معروف گلوکار شوکت علی جمعے کو خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی زندگی اور فن پر انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی تحریر

گلوکاری کا شوق انہیں اپنے بڑے بھائی عنایت علی خان کو دیکھ کر بچپن سے ہی رہا۔(تصویر: بشکریہ شوکت علی خان فین کلب فیس بک پیج)

ایک دن کلاس میں جب کوئی ٹیچر نہیں تھا تو ایک طالب علم نے ڈیسک کو طبلہ بنا کر ایسے گنگنایا کہ پرنسپل تک ان کی آواز پہنچ گئی۔ انہوں نے اس طالب علم کو بلا کر ڈانٹ تو ضرور پلائی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس گلوکاری کے سلسلے کو جاری رکھنا۔

یہ طالب علم مستقبل کا شوکت علی تھا، جو جمعے کو خالق حقیقی سے جاملے۔

شوکت علی کو آپ لوک گلوکار کہیں گے یا غزل گائیک یا پھر ہلکی پھلکی نغمہ سرائی کا سریلا گلوکار، یہ فیصلہ کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ شوکت علی کا ہی خاصہ رہا کہ انہوں نے گلوکاری کی کم و بیش سبھی اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کی آواز میں جہاں درد اور سوز ملتا، وہیں جب وہ پاکستانی ملی نغموں کو گنگناتے تو ہر ایک کے اندر جوش و جذبے سے بھرا لہو دوڑنے لگتا۔

والدہ کا سایہ انتہائی کم عمری میں سر سے اٹھا تو انہیں نامساعد حالات نے آگھیرا۔ تعلیم کا شوق تھا، اس لیے شوکت علی نے اس سلسلے کو منقطع کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ انہوں نے والدہ اور بھائی کے ساتھ مختلف شہروں کا رخ کیا لیکن پھر لاہور میں ہی آکر ڈیرے ڈال لیے۔ یہاں آکر مالی مسائل دامن گیر رہے۔ ایک وقت تو وہ بھی تھا کہ جب ان کا نام فیس نہ ہونے کی بنا پر سکول سے کاٹ دیا گیا تو انہوں نے چھٹی لے کر سکول کے باہر ہی چھولے بیچ کر فیس کی رقم اکٹھی کی۔

گلوکاری کا شوق انہیں اپنے بڑے بھائی عنایت علی خان کو دیکھ کر بچپن سے ہی رہا۔ شوکت علی کی زندگی مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’صید ہوس‘ میں شہزادہ قیصر کا کردار ادا کیا۔ اس میوزیکل ڈرامے میں گانے بھی تھے، جن میں شوکت علی نے اپنی آواز کا جادو جگایا، جنہیں خاصا سراہا گیا۔ بعد میں ہر سٹیج ڈرامے میں ان کا کوئی نہ کوئی گانا شامل کیا جاتا۔ احباب نے مشورہ دیا کہ وہ اداکاری سے زیادہ گلوکاری بہتر کرتے ہیں، جبھی انہوں نے کیمرے کے آگے آنے کی بجائے مائیک سنبھال کر نغمہ سرائی پر زیادہ توجہ دینا شروع کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوکت علی کی خوش قسمتی ہی ہے کہ ان کی سریلی اور کھنک دار آواز موسیقار ایم اشرف کو بھاگئی، جنہوں نے 1963میں شوکت علی کو ’تیس مار خان‘ میں پہلی بار گلوکاری کا موقع دیا۔ گیت ’پگڑی اتار او‘ کو غیرمعمولی شہرت ملی۔ دو سال بعد جب پاکستان بھارت جنگ ہوئی تو جہاں ملکہ ترنم نور جہاں کی جوشیلی گلوکاری عروج پر تھی، وہیں شوکت علی اور مسعود رانا کے گائے ہوئے فلم ’مجاہد‘ کے گیت ’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ نے تو جیسے چاروں طرف دھوم مچادی۔ یہی نہیں شوکت علی کی جوشیلی گلوکاری کا شاہکار ’اے دشمنِ دین تو نے کس قوم کو للکارا‘ تو ہر ایک کی زبان پر رہا۔ اس کے بعد شوکت علی کی مقبولیت اور شہرت کا وہ سفر شروع ہوا، جس کا تصور ممکن ہے، انہوں نے کیا بھی نہیں ہوگا۔

شوکت علی کا ایک کمال یہ بھی رہا کہ انہوں نے ’سیف الملوک‘ جو عام طور پر راگ پہاڑی میں گائی گئی، لیکن شوکت علی نے اسے بھیروی میں گا کر سب کو دنگ کردیا۔ اس کمپوزیشن کو خود انہوں نے ہی ترتیب دیا تھا ۔70 کی دہائی کے آتے آتے شوکت علی دیگر گلوکاروں کے مقابل آکھڑے ہوئے تھے، جو لوک ہی نہیں غزل گلوکاری میں بھی اپنی مثال آپ شناخت کیے جاتے۔ بالخصوص ان کی گائی ہوئی غزلیں’کیوں دور دور رہندے ہو‘ یا پھر فیض احمد فیض کے کلام ’ترے غم کو جاں کی تلاش تھی‘ کو سن کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی لوک گلوکار گا رہا ہے۔ اسی طرح بھلا کون ذہنوں سے نکال سکتا ہے احمد ندیم قاسمی کی غزل ’اک بت مجھے بھی،‘ جسے شوکت علی نے ڈوب کر گایا ۔ شوکت علی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہاکہ انہوں نے نامور شعرا کرام کا کلام گنگنایا۔

طالب چشتی کا لکھا ہوا گیت ’کدی تے ہنس بول‘ شوکت علی کی شاہکار گلوکاری کا تحفہ تصور کیا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کا یہ گیت ہر گلوکار نے گایا۔ چاہے اس کا تعلق بھارت سے ہو یا پاکستان سے۔ جسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف انداز دیے گئے لیکن جو لطف شوکت علی کے گائے ہوئے گانے میں ہے، وہ واقعی ایک خوشگوار احساس دیتا ہے۔ بہت کم لوگوں کے علم ہے کہ شوکت علی نے دو پاکستانی فلموں ’کفارہ‘ اور ’اکبر‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ 90کی دہائی میں حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا جبکہ 2013 میں حکومت پنجاب نے انہیں پرائیڈ آف پنجاب قرار دیا۔

شوکت علی صرف ایک موسیقار، گلوکار یا اداکار ہی نہیں بلکہ شاعر بھی تھے جن کے دو شعری مجموعے آئے۔ انہوں نے دنیا بھر میں شوز کیے اور بے شمار اعزازات اپنے نام کے ساتھ منسلک کرائے ۔انہیں تو یہ بھی اعزاز ملا کہ 1982میں دہلی میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں وہ پاکستانی طائفے میں شامل تھے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ ہر گلوکار کے لیے آئیڈل تصور کیے گئے۔ مرحوم اشفاق احمد کے یہ الفاط شوکت علی کی قدر و منزلت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ’شوکت علی گاتا نہیں۔ یہ گلوکار ہیں اور نہ ہی گائیک، بلکہ یہ تو گانے کے سادھو ہیں۔ غزل ہو ، ماہیا ہو، گیت ہو، سیف الملوک ہو، یہ سادھو اپنی اس دنیا میں الاپتا چلا جاتا ہے۔ ‘

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی