چترال کا علاقہ قاقلشٹ آخر ہے کس کی ملکیت؟

ضلع چترال کے علاقے قاقلشٹ کے عوام اور مقامی انتظامیہ آج کل علاقے کی ملکیت کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کا موقف ہے کہ یہ علاقہ ان کی ملکیت ہے اور انتظامیہ اس علاقے سے فائدہ اٹھاتی چلی آئی ہے جبکہ انتظامیہ اسے ’سرکاری زمین‘ قرار دیتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قاقلشٹ کی زمین کو ’سرکاری‘ قرار دیا گیا ہے، تاہم مقامی افراد اس زمین پر اپنی دعوے داری ظاہر کر رہے ہیں (تصویر: بشکریہ شاہ صباح)

ضلع چترال کے علاقے قاقلشٹ کے عوام اور مقامی انتظامیہ آج کل علاقے کی ملکیت کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔

چترال کے ہیڈکوارٹر بونی کے آس پاس کے علاقے کے مکین انتظامیہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جن کا کہنا ہے کہ قاقلشٹ ان کی ملکیت ہے اور انتظامیہ اس علاقے سے فائدہ اٹھاتی چلی آئی ہے۔

اس معاملے نے اس وقت سر اٹھایا جب رواں ہفتے بونی کے رہائشیوں کی جانب سے قاقلشٹ میں 50 ہزار پودے لگانے کے ساتھ ساتھ چھ ٹینکیاں اور پانی کے پائپ نصب کیے گئے، تاہم حکومتی اہل کاروں نے سارے پودے اکھاڑ کر ٹینکیاں بند کردیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قاقلشٹ کی زمین کو ’سرکاری‘ قرار دیا گیا ہے، تاہم مقامی افراد اس زمین پر اپنی دعوے داری ظاہر کر رہے ہیں اور کئی نسلوں سے اس علاقے پر ان کا قبضہ رہا ہے۔

اس معاملے پر تبصرے کے لیے جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپر چترال کے ترجمان سید مختار علی شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’بونی کے عوام امن کا راستہ چھوڑ کر تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں، جو غلط بات ہے اور کسی کے مفاد میں نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لوگوں کو چاہیے کہ قانون کا راستہ اپنائیں تاکہ لینڈ ریکارڈ میں درستگی کی جاسکے۔ میری معلومات کے مطابق قاقلشٹ کی ملکیت کی دعوے داری کے لیے کسی نے درخواست نہیں دی تھی۔‘

واضح رہے کہ انتظامیہ کی جانب سے قاقلشٹ میں جمع ہونے، کھیلوں کے مقابلوں اور کیمپنگ پر بھی پابندی عائد ہے۔

اس حوالے سے لینڈ سیٹلمنٹ آفس اپر چترال کے ایک عہدیدار نے بتایا: ’قاقلشٹ کا رقبہ 72000 کینال ہے اور یہ مکمل طور پر سرکاری علاقہ ہوچکا ہے۔‘

دوسری جانب بونی سے تعلق رکھنے والے عمران لال نے بتایا: ’قاقلشٹ بونی، موڑ کھو، استروان اور بمباغ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہماری جائیداد ہے، ہم اس سے مکمل طور پر فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ ہماری چراگاہ ہے اور یہاں کے جنگلی پودے ہم ایندھن کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ پہلے یہاں پانی کا نظام نہیں تھا۔ ہم نے وہاں پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لیے پانچ ٹینکیاں بنائیں۔ اس کے علاوہ ہم نے 50 ہزار پودے بھی لگائے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’مقامی انتظامیہ نے ٹینکیوں کے علاوہ ہمارے لگائے ہوئے پودے بھی تباہ کیے۔ یہ ہمارے ساتھ ظلم ہے۔ دیر اور سوات وغیرہ میں لوگ پہاڑوں کے اوپر گھر بنا سکتے ہیں، لیکن ہم اپنی چراگاہ اور بنجر زمین استعمال نہیں کر سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بونی کے ایک اور رہائشی سردار حکیم نے بتایا: ’ہم قاقلشٹ سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں اور بونی کو حکومت نے آفت زدہ قرار دے دیا، حکومت کو ہمارے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ ہم نے انتظامیہ کے علم میں لانے کے بعد قاقلشٹ کے کچھ حصے میں شجر کاری مہم کے تحت پودے لگائے تھے، جو انتظامیہ نے اکھاڑ پھینکے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے یہ مسئلہ چیف سکریٹری کے سامنے بھی اٹھایا ہے اور انہوں نے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے ہدایات جاری کردی ہیں جبکہ ہمارے رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بھی اپنے ٹیم کے ہمراہ بونی میں موجود ہیں، تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘

اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر اپر چترال شاہ عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عوام کی طرف سے قاقلشٹ میں آبادکاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک میٹنگ کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں ایم پی اے ہدایت الرحمان، ونگ کمانڈر مستوج اور اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر شریک ہوئے۔ اس ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس حوالے سے کمشنر مالاکنڈ سے مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا، لیکن انتظامیہ غیر قانونی قبضے کی اجازت نہیں دے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان