پاکستان کی 90 فیصد زرعی پیداواری صلاحیت پر سوالیہ نشان

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے جن اہم ماحولیاتی مسائل کی نشاندی کی گئی ہے  ان میں پانی سر فہرست ہے۔

تصویر؛ اے ایف پی

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے جن اہم ماحولیاتی مسائل کی نشاندی کی گئی ہے  ان میں پانی سر فہرست ہے۔

 پانی کی قلت:

جنوبی ایشیا کا خطہ ان علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

 پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی پینے کے پانی کی فی کس دستیابی پہلے کے مقابلے میں کئی گنا کم ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فی کس  دستیاب پانی کی مقدار1000 کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔

پاکستان میں پینے کے پانی  اور زراعت کا دارومدار زیر زمین پانی کے ساتھ ساتھ دریا وں پرہے۔

پاکستان میں بہنے والا دریائے سندھ دنیا کے چند بڑے دریاوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

 دریائے سندھ چین اور پاکستان سے ہوتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

اس دریا کے کناروں پر مختلف تہذیبوں نے جنم لیا ہے۔ یہ ماضی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا شدید شکار رہا اور حال میں بھی ایسا دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ سندھ طاس کا نہری نظام دنیا کے بڑے نہری نظاموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

یہ 1 لاکھ 80 ہزار مربع کلو میٹر زرعی اور نیم زرعی رقبے کو سیراب کرتا ہے۔ جو کہ پاکستان کی 90 فیصد زرعی پیداواری صلاحیت ہے۔

پاکستان دریائی پانی میں کمی کا شکار ممالک میں بھی سر فہرست شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کمی پاکستان کی مذکورہ 90 فیصد زرعی پیداواری صلاحیت پر بھی شدت سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔  

سندھ طاس حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بھی اہم حیثیت رکھتا ہے جس کو مختلف خطرات لاحق رہتے ہیں۔

دریائے سندھ میں تیرنے والی مخصوص ڈولفن کی تعداد میں 2015 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 20 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔

جنوبی ایشیا میں خشک سالی کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان، بھارت اور افغانستان میں صاف پانی تک رسائی اور تقسیم کے حوالے سے شدید مسائل کا شکار ہیں۔

آبادی میں اضافہ:

بڑھتی آبادی پوری دنیا سمیت جنوبی ایشیا کا بھی اہم مسئلہ ہے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ بڑھتی انسانی ضروریات کا دباؤ پورے خطے پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

 2050 تک چین   اور بھارت کے علاوہ پاکستان اور  انڈونیشیا تیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ممالک ہوں گے۔

ایشیا ایک گنجان آباد خطہ ہے اوریہاں دنیا کی تقریبا 60 فی صد آبادی یعنی ساڑھے چار ارب لوگ رہائش پذیر ہیں۔

گوکہ 2014 میں اس خطے میں آبادی میں اضافہ 0.9 فیصد تھا لیکن اس کے باوجود 2050 تک ایشیا دنیا کی آبادی میں مجموعی اضافے کے آدھے سے زیادہ حصے کا حامل ہو گا۔

 2050 تک تیس کروڑ آبادی والے چھ میں سے کم سے کم چار ممالک ایشیا سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ چین، پاکستان، انڈونیشیا اور بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور ویت نام جیسے ممالک کے ساتھ اس خطے کو دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ بنا دیں گے۔

 شہری آبادی:

دنیا کے 1 کروڑ سے زیادہ آبادی والے 28 شہروں میں سے آدھے سے بھی زیادہ ایشیا میں ہیں۔ ان شہروں میں سے چھ چین، تین بھارت، دو جاپان، جبکہ پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور فلپائن کا ایک ایک شہر شامل ہے۔

دنیا کے تین سب سے بڑے شہر ٹوکیو، دہلی اور شنگھائی ایشیا میں ہیں۔

جنگلات :

پاکستان دنیا کے ان کے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں جنگلات کا رقبہ 25 فیصد سے کم سمجھا جاتا ہے، ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، آسٹریلیا، بنگلہ دیش،چین، بھارت، ایران، مالدیپ اور سنگا پور کے ساتھ مغربی ایشیا کے تمام ممالک شامل ہیں۔

جب کہ ایک اور جنوبی ایشائی ملک بھوٹان 70 فیصد سے زیادہ رقبے پر جنگلات کے ساتھ سب سے آگے ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی:

ہندوکش، ہمالیہ اور منگولیہ جیسے سرد علاقوں میں کم درجہ حرارت والا موسم کم ہو چکا ہے۔ خشک سالی کی وجہ سے ان علاقوں میں مویشیوں کا نقصان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سائینسی مشاہدے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسم گرما کی بارشیں کافی کم ہو چکی ہیں جبکہ موسم سرما کی برف باری میں کئی دہائیوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراکرم کی مقامی آبادی کی جانب سے طویل موسم گرما اور قلیل مدت کے موسم سرما کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد گرمی کی شدید لہر نے حالیہ برسوں میں لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اس تحقیقاتی رپورٹ کو مرتب کرنےمیں تین پاکستانی ریسرچرز بھی شامل تھے جن کے نام یہ ہیں:

تنویر حسین، ورچوئل یونیورسٹی

امجد ورک، وزارت موسمیاتی تبدیلی

امان اللہ خان، ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات