نایاب پاکستانی مادہ ریچھ جواریوں کی پہنچ سے باہر

ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے کالے ریچھوں کی اس نسل کو انتہائی خطرے سے دوچار نسل قرار دیا ہے۔

سرسبز ٹیلوں کے درمیان تالاب میں دو کالے ریچھ پانی میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔

ان میں ایشیاٹک کالی ریچھنی شامل ہے جسے سندھ سے اس ریچھ بحالی مرکز میں لایا گیا ہے۔

اسے اب ایک وسیع رقبے پر مشتمل فطرتی ماحول میں چھوڑدیا جائے گا جو خاص طور پر ان ریچھوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

اس ریچھنی کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک پیتل کی نکیل اس کی ناک میں ڈالی گئی تھی۔

کھلی فضا میں رکھنے سے قبل اس نکیل کو اتارا گیا اور اس کی وجہ سے ہونے والے زخم کی مرہم پٹی بھی کی گئی۔

ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے کالے ریچھ کو انتہائی خطرے سے دوچار نسل قرار دیا ہے۔

تاہم اب بھی ان کا غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے اور بعض شکاری انہیں زندہ پکڑ کر مداری کو فروخت کردیتے ہیں۔

کچھ علاقوں میں ریچھ اور کتوں لڑائی کرائی جاتی ہے جس پر حکومت پاکستان پابندی عائد کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے سوموار کی شام جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ  دنیا میں جنگلی و سمندری حیات اور نباتات کی دس لاکھ اقسام آنے والے دس برس سے بھی کم عرصے میں ناپید ہونے کے قریب ہیں۔

اس بربادی کی ایک اہم وجہ انسانوں کی طرف سے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال، چرند، پرند کے رہنے والے علاقوں کا سکڑنا، موسمی تبدیلی اور آلودگی کو قرار دیا گیا ہے۔

50 ممالک کے 145 سائنس دانوں کی جانب سے تیار کردہ 1800 صحفات پر مشتمل اس رپورٹ میں انسان کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے کرہ ارض پر موجود دیگر حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان میں کئی اقسام کے چرند پرند معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، جن میں ایشیاٹک بلیک بیئر (کالا ریچھ) سرفہرست ہے۔ 

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر، جاوید احمد مھر کے مطابق پاکستان میں ریچھ کی چار اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے ایشیاٹک بلیک بیئر شکاریوں میں مقبول ترین سمجھا جاتا ہے۔

ایشیاٹک بلیک بیئر زیارت، قلات، خضدار کے تخت سلیمان اور توبہ کاکڑ پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا تھا۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی، سبزے کی کمی، بارشوں کے نہ ہونے اور پیشہ ور شکاریوں کی جانب سے کالے ریچھ کو ان علاقوں سے پکڑ کر بیچنے کی وجہ سے یہ ریچھ اب تخت سلیمان اور توبہ کاکڑ کے پہاڑی سلسلوں سے مکمل طور پر ناپید ہوگیا ہے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق مداریوں کا اسے نچانے کےلیے پکڑنا، بااثر لوگوں کا اس ریچھ کو ایک پالتو جانور کی طرح رکھنا اور پھر کتوں کے ساتھ لڑوانا، ان سب معاملات کی وجہ سے کالا ریچھ پاکستان میں چند سو کی تعداد میں رہ گیا ہے۔

سندھ اور پنجاب میں ریچھ کتوں کی لڑائی مقبول رہی ہے۔

کالے ریچھ کی ناک میں لگی نکیل سے بندھی رسی کو کو زمین پر لگے ایک کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور بعد میں کئی خونخوار کتوں کو اس پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس مقابلے پر جوا بھی کھیلا جاتا ہے۔ اس خونخوار کھیل میں اکثر ریچھ کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

جاوید احمد مھر کے مطابق ’انگریز دور میں برطانوی حکمرانوں نے ریچھ کتوں کی لڑائی کا آغاز کیا تھا جو اب تک جاری ہے۔ ‘

حکومت پاکستان نے 2007 میں ریچھ کتوں کی لڑائی پر مکمل پابندی لگا کر اسے غیر قانونی قرار دیا جس کے بعد چاروں صوبوں میں محکمہ جنگلی حیات نے ایسے مقابلوں پر چھاپے مارے اور ریچھ کو اپنی تحویل میں لے کر انھیں ریچھ بحالی کے قومی مرکز میں چھوڑدیا گیا۔

سندھ کے خیرپور ضلع کے علاقے پیر وسن سے پکڑی گئی کالی ریچھنی کو بھی جلد ہی صوبہ پنجاب میں ریچھوں کے لیے بنائے گئے علاقے میں چھوڑدیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات