داتا دربار حملہ: ’ایک تیر سے دو شکار‘

یہ مزار کسی بھی تعصب کے بغیر ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مرجع خلائق ہے اور یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ایسی جگہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے۔

ایک پولیس اہلکار حملے میں ہلاک ہونے والے شخص کے رشتے دار کو   گلے لگا کر تسلی دے رہا ہے۔ تصویر: اے پی

ہم اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا کرتے تھے کہ لاہور میں کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ چاہے وہ اسی شہر کا باسی ہو یا کوئی پردیسی۔ بچپن میں تو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی مگر جب بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہوتا ہے۔  ’داتا کی نگری‘ لاہور شہر کے بیچوں بیچ موجود ہے، حضرت سید ابوالحسن بن عثمان بن علی الہجویری کا مزار یا زبان زد عام داتا دربار۔ یہاں 24 گھنٹے لنگر چلتا ہے جسے دن میں ہزاروں افراد کبھی تبرک سمجھ کر یا پھر اپنی اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اسی لیے کہتے تھے بڑے بوڑھے کہ لاہور میں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔

 تاریخ دان مدثر بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تاریخ کے مطابق محمود غزنوی کے دور میں جو لوگ غزنی سے یہاں آئے، ان میں حضرت علی ہجویری بھی شامل تھے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھاٹی دروازے کے پاس قیام کیا اور پھر وفات کے بعد یہیں ان کی آخری آرام گاہ بنا دی گئی جسے داتا دربار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک ہزار سال سے یہ مزار یہاں موجود ہے۔ کبھی داتا  دربار کے عرس کا اشتہار نہیں دیا گیا مگر پھر بھی ملک بھر سے لاکھوں لوگ ہر سال یہاں آتے تھے، مگر پھر بدقسمتی سے جب دہشت گردی نے زور پکڑا تو داتا کا عرس یا میلہ بھی سکڑ کر صرف داتا دربار کے ارد گرد ہی رہ گیا، ورنہ یہ میلہ لاہور کے بڑے میلوں میں سے ایک تھا۔

90 کی دہائی کی ابتداء میں ہم نے خود دیکھا ہے کہ شہر کے ساتھ ساتھ جو باغ تھا اس میں دکانیں لگا کرتی تھیں اور جتنی تفریح کی چیزیں تھیں، مینارِ پاکستان کے ساتھ منٹو پارک میں ان کا انتظام کیا جاتا تھا، جس میں سرکس، تھیٹر، دنگل، مختلف اقسام کے سنگیت جن میں فوک گلوگار آیا کرتے تھے اور موت کے کنویں شامل تھے۔ اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کے رقص وغیرہ یعنی ثقافتی سرگرمیاں بھی اس عرس کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ تقسیمِ ہند سے پہلے بھی اگر ہم اس مزار کی اہمیت کو دیکھیں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی عقیدت کے ساتھ حاضری دینے یہاں آیا کرتے تھے۔  ان سے پہلے جتنے مسلمان بادشاہ تھے وہ بھی یہاں آتے رہے، یہاں تک کہ برطانوی دورِ حکومت میں جو انگریز ہند میں مختلف عہدوں پر فائز رہے، وہ بھی یہاں آیا کرتے تھے بلکہ داتا صاحب کے مزار کے ساتھ جو ایک چھوٹا سا قبرستان ہے وہاں پر فاروق احمد انگلستانی کی قبر بھی موجود ہے جو ایک برطانوی لارڈ تھے اور اسی جگہ کی کرامات کی وجہ سے نہ صرف انہوں نے اسلام قبول کیا بلکہ اس کے قریب قبرستان میں دفن بھی ہوئے۔ یہ مزار کسی بھی تعصب کے بغیر ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مرجع خلائق ہے اور یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ایسی جگہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے۔

داتا کے دربار میں 24 گھنٹے زائرین، سائلین اور تکریم پیش کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ داتا کی آرام گاہ کے قریب کھڑے ہونے کا وقت ہر آنے والے کو ملتا ہے مگر صرف ایک منٹ تاکہ سب آنے والے زائرین کو مرقد کی زیارت ہوسکے اور وہاں ہجوم کھڑا نہ ہو۔ اس مزار پر ہونے والی محافل شبینہ میں کبھی قرآن مجید کی قرات تو کبھی پُرسوز نعتوں اور کبھی ولولہ انگیز قوالیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مگر افسوس کہ گذشتہ نو برسوں میں اس دربار نے چار بم دھماکوں کی گونج بھی سنی اور اس کے صحن نے درجنوں خون آلود لاشیں دیکھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جولائی 2010 میں یہاں یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے جن میں 47 افراد کی جان چلی گئی اور اب دو رمضان المبارک بروز بدھ داتا دربار کے گیٹ نمبر دو کے باہر دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں دربار کے باہر سکیورٹی کے لیے کھڑی پولیس موبائل وین کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں پولیس حکام کے مطابق دس افراد  ہلاک اور 24 زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کی کوریج کرنے والے ایک نجی چینل سے منسلک صحافی شیراز حسنات بتاتے ہیں کہ ’2010 میں جب انہوں نے داتا دربار پر ہونے والے دھماکے کی کوریج کی، تب ملک بھر میں باقاعدہ دہشت گردی کی ایک لہر چل رہی تھی اور کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ حالیہ دھماکے کا اثر بھی یقیناً اتنا ہی ہوا ہے۔ کچھ عرصے سے شہر میں امن تھا جس کی وجہ سے اہلیانِ لاہور اس طرح کے حادثے کی توقع نہیں کر رہے تھے لیکن اس سانحے نے شہر میں 2010 والی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ 2010 میں ہونے والے دھماکوں میں جانی نقصان کہیں زیادہ تھا، ہمارے خفیہ اداروں نے اس قسم کے خطرے سے پہلے ہی آگاہ کر رکھا تھا مگر اس میں خاص طور پر کسی جگہ کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ ہم پہلے سمجھے کہ شاید سیلنڈر دھماکہ ہوا ہے کیونکہ اکثر دھماکے کی اطلاع پر ہم یہی سمجھتے ہیں کہ سیلنڈر پھٹا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دھماکے کا ہدف پولیس تھی مگر اس بات کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کہ مزار کے اندر کی سکیورٹی بھی اب کوئی خاص نہیں ہے۔ کچھ جگہوں پر واک تھرو گیٹس لگے ہیں مگر وہ بھی کیا کر سکتے ہیں؟ صرف ان کا الارم بج سکتا ہے وہ تو جیب میں چابی بھی ہو تو بج جاتا ہے اور گارڈ لوگوں کی جامہ تلاشی لے لیتا ہے۔‘

شیراز حسنات کے مطابق ’ایک رپورٹر ہونے کے ناطے ہم ایسے بہت سے واقعات کور کرتے ہیں، جس میں خوف بھی آتا ہے کیونکہ اکثر دوسرا دھماکہ بھی کچھ دیر میں ہو جاتا ہے مگر ہونا یہ چاہیے کہ جب ایسے حملوں کے بارے میں پیشگی اطلاع ملتی ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جائے اور پنجاب پولیس جو  ’ہنی مون پیریڈ‘ گزار رہی تھی، انہیں چاہیے کہ وہ اب تھوڑے چوکنے ہو جائیں، خاص طور پر شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کو یقینی بنایا جائے۔‘

تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک سے دہشت گردی کا 85 فیصد خاتمہ ہوچکا ہے اور اب صرف 10 سے 15 فیصد دہشت گرد ہی متحرک ہیں، جن کا تعلق بھی دہشت گردوں کے چھوٹے موٹے گروپوں سے ہے۔ دوسری جانب چند مذہبی عناصر ایسے بھی اس معاشرے پر غالب ہیں، جو مزاروں وغیرہ پر جانا مناسب نہیں سمجھتے مگر داتا دربار میں ہونے والے حالیہ دھماکے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اب بھی کہیں نہ کہیں شہر اور صوبے میں دہشت گرد گروپوں کے ہمدرد موجود ہیں جو  قبائلی علاقوں میں موجود بچے کھچے دہشت گرد گروپوں کے مددگار بنتے ہیں۔‘

ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق: ’2010 کے دھماکوں میں دہشت گردوں کا مقصد دربار کے اندر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنا تھا جبکہ حالیہ دھماکہ سحری کے بعد ہوا، جب دربار کے اندر زیادہ رش نہیں تھا اور لوگ روزہ رکھ کر نماز وغیرہ پڑھ کر گھروں کو جاچکے تھے، لہذا ان کا ہدف تو پولیس تھی مگر دیکھا جائے تو یہ ایک تیر سے دو شکار تھے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان