شاہیا پہلوان: زمیں کھا گئی پہلواں کیسے کیسے

’ یہ فلمی لوگ ہمارا سب کچھ کھا چکے ہیں، اب تو یہ خالی چارپائی بچی ہے۔ ہمارے کُنبے قبیلے کو اِنھوں نے ایسا لوٹا کہ رہے نام اللہ کا۔‘

ڈیرہ شاہیا پہلوان، اندرون ٹکسالی  گیٹ (تصویر: شیراز حسن)

لاہور مستی گیٹ کے سامنے والا تمام علاقہ اندرون شہر کا مرکزی دالان ہے۔ اِسے شاہی محلہ اور طوائف بازار بھی کہتے ہیں۔ ایک روز میں اِسی سڑک پر تھوڑا آگے چلا گیا تو ایک جانی پہچانی جگہ معلوم پڑی۔

کھلا سا علاقہ، برگدوں اور پیڑوں سے گھِرا ہوا، پہلو میں سے ایک چوڑی سڑک قلعے کی دیوار کے ساتھ چکر کھا کر اُوپر شہر کی بلندی پر چڑھ رہی ہے، سامنے برگد کے درختون کے دامن میں پہلوانوں کا بہت بڑا اکھاڑا ہے، پاس ہی ایک دو ٹانگے ٹوٹے ہوئے بمبو کے ساتھ نہایت بوسیدہ حالت میں کھڑے ہوئے، پہیے ٹوٹ پھوٹ کر مین میں دھنسے ہوئے، اکھاڑے کے سامنے برگد کے نیچے کھری چارپائی پر ایک بوڑھا آدمی، جیسے کسی اور زمانے سے اکھیڑ کر یہاں لا بٹھا دیا گیا ہو۔

یہ جگہ بالکل میری مانوس لگتی تھی مگر یہ طے تھا کہ پہلے مَیں یہاں سے کبھی نہ گزرا تھا۔ پھر کہاں دیکھی تھی یہ جگہ؟ بہت دیر دماغ میں اُلجھن رہی۔ آخر ایک راہ گیر کا رستہ روک کھڑا ہوا اور اِس جگہ کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے حیرانی سے کہا، ’لو بھئی، تم اِس جگہ کو نہیں جانتے؟ یہی شاہیے پہلوان کا اکھاڑا ہے۔‘

ارررے باپ رے۔ ایک دم پینتیس سال کی یاد نے پیچھے کھینچ لیا۔ ہم نے یہ مقام پنجابی فلموں میں کئی بار دیکھا تھا اور ایک فلم ’پُتر شاہیے دا‘ میں تو یہی جگہ عین بہ عین تھی جہاں آج مَیں کھڑا تھا۔

یہیں سے شاہیے کا پُتر اپنے ٹانگے سے اُتر کا اکھاڑے میں داخل ہوتا تھا۔ فلم میں قلعے اور مسجد کے مینار اور اُن کے آس پاس اُڑتے ہوئے کبوتر صاف دکھائی دیتے تھے۔ اُن وقتوں میں آسمان بہت نیلا ہوتا تھا اِس لیے کبوتروں کا رنگ زیادہ سفید نظر آتا تھا۔

ایک چیز اُس میں بہت خوب تھی کہ یہاں صفائی اور ارد گرد مکانوں کی شکلیں بہت بھلی اور پرانی طرز کی تھیں لیکن اب تو یہ تمام جگہ ایک کھنڈر تھی۔ سب مکانوں کی چھتیں زمین بوس تھیں اور ایسی غربت اور افلاس اِس جگہ سے ٹپکتی تھی جیسے مہرولی کے اُجڑے دیار ہوں۔

مَیں نے سوچا شاید فلموں میں شوٹنگ سائیٹ کو صاف کر لیا جاتا ہے، اسی لیے فلم میں یہ جگہ نہایت دلفریب معلوم ہوتی تھی۔ مَیں نے اُس سے پوچھا، ’یہاں کوئی آدمی ہے جس سے بات کی جا سکے؟‘

اُس نے کہا، ’وہ سامنے گوگا پہلوان بیٹھا ہے، یہی آج کل اِس جگہ کا مالک ہے اور شاہیے پہلوان کا چھوٹا بیٹا ہے۔‘

گوگا پہلوان کا نام سُنتے ہی مجھے پھر پنجابی فلموں نے اپنی طرف پھیر لیا۔ مَیں نے یہ نام کئی بار اخباروں کے فلمی اشتہاروں میں پڑھا تھا۔ مَیں سیدھا گوگے پہلوان کے پاس جا پہنچا۔ گوگے نے بہت وضع داری سے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ وہ دیکھنے میں ہرگز پہلوان نہیں لگتا تھا۔ عام سے جسم کا مالک، ساٹھ یا پینسٹھ برس کی عمر کا سیدھا سادھا آدمی تھا اور اُس سو سال پُرانے اکھاڑے کا واحد مالک تھا جو اپنے ساتھ دوستیوں، دشمنوں، رسموں، رواجوں، پنجابی فلموں اور دادا گیریوں کی سینکڑوں روایات سنبھالے ہوئے تھا۔

دعا سلام کے بعد گوگے پہلوان نے مجھے لسی پلانے کی دعوت دی۔ مَیں نے انکار کیا مگر وہ نہ مانا اور پل کی پل میں لسی کے دو بڑے گلاس سامنے آ گئے۔ لسی پینے کے بعد میری اُس سے کھُل کر باتیں ہونے لگیں۔ اُس نے بتایا کہ اب اُس میں پہلوانی کرنے کی سکت تو نہیں رہی، البتہ نئے پَٹھوں کو گُر سکھانے میں آج بھی اندرون شہر میں اُس کے مقابلے کا کوئی پہلوان نہیں ہے۔ اُس نے بتایا لاہور میں آج بھی ۳۵ اکھاڑے ہیں جہاں پہلوان زور کرتے ہیں مگر اندرون لاہور میں اتنا کشادہ اکھاڑا کہیں اور نہیں ہے۔ پہلوانوں میں میری دلچسپی دیکھ کر وہ مجھے ایسے کمرے میں لے گیا جہاں سینکڑوں پہلوانی کے مقابلوں اور پہلوانوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کمرے کی ایک دیوار پر اُن فلموں کے پوسٹر لگے تھے جو اُس کے باپ اور بھائی نے بنوائی تھیں۔ جب مَیں نے اُس سے سوال کیا کہ یہ جگہ اس قدر ویران اور کھنڈر کیوں ہے تو گوگے نے اپنے دُکھوں کی پٹاری کھول دی۔

کہنے لگا: ’میرے بھائی، کیا بتاؤں، قصہ طویل ہے اور دُکھ ہمارے بہت ہیں۔ ایک وقت تھا، یہاں جس جگہ تم بیٹھے ہو، میرے باپ کی حکومت کا گویا تخت بچھا ہوتا تھا۔ بس یونہی سمجھو اِس قلعہ کے اِدھر سے بھاٹی تک شاہیے پہلوان کے گُرز ہلتے تھے۔ ابا جی کے حکم کے بغیر شہر کا پہیہ نہیں چلتا تھا۔ اندرون کے دکان دار، ساہوکار، ملازم اور رنڈیاں سب ہی ہماری رعایا میں شمار ہوتے تھے۔ رنڈیاں بچاری پیشہ کرتی تھیں، اگر کوئی تماش بین اُنھیں تنگ کرتا تو ابا جی فوراً اپنے پٹھوں کو بھیج کر اُس کی ٹانگیں ہمیشہ کے لیے چیر دیتے۔ شاہیے کے ہوتے ہوئے اُن کی نگری میں بدمعاشی نہیں چل سکتی تھی۔

’بڑے بڑے بدمعاش اِس علاقے کا قبضہ لینے کے لیے آئے، پولیس اور عدالتوں نے بہت ہاتھ پاوں مارے، مگر دادا جی نے جیتے جی کسی کو بھاٹی سے لے کر شاہی محلے تک اور وہاں سے اکبری دروازے تک کسی کو پھٹکنے نہیں دیا تھا۔ یہاں کی تمام رعایا کا وہ خیال رکھتے تھے اور معاوضے کے طور پر بس تھوڑا بہت ٹیکس اُن سے لیتے تھے۔ اِسی جگہ جہاں تم بیٹھے ہو، یہاں مُلک کے مشہور مُرغوں اور بٹیروں کی پالیاں لڑ چکی ہیں جن پر اُس دَور میں لاکھ لاکھ روپے کی شرطیں چڑھتی تھیں۔

’ابا جی اپنی بگھی پر بیٹھ کر شاہی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے تو ایسے لگتا تھا جیسے مغل بادشاہ کی سواری جاتی ہے۔ لوگ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ پھر ایک دن میرے ابا کے پاس سلطان راہی آ گیا۔ کہنے لگا، ’چاچا شاہیا چل تیرے اُوپر فلم بناتے ہیں۔‘ بس سمجھ لو یہی ہمارے زوال کا دن تھا۔ ابا نے پہلی فلم ’پُتر شاہیے دا‘ بنائی اور مُلک میں دھوم پڑ گئی۔ اُس کے بعد تو پھر چل سو چل ہو گئی۔ پہلوانی میں اور دادا گیری میں نام پہلے ہی آسمان کو چھوتا تھا، اب فلموں میں لاہور سے باہر پورے مُلک میں پھیل گیا اور ہمارا ٹہکا پورب پنچھم ہو گیا۔

’سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، لالہ سدھیر جیسے اداکار ابا کی پائنتی بیٹھتے تھے اور یہی ایک دن ہمیں لے ڈوبے۔ ابا جی کو اُن لوگوں نے فلموں پر لگا دیا۔ فلمیں سینماؤں میں چلیں، پورے مُلک میں واویلا مچ گیا، والد صاحب کی عزت آسمان کو جا لگی۔ شاہی محلہ کی طوائفیں قطار در قطار آنے لگیں کہ ہمیں بھی فلم میں کام لے کر دو۔ بیسیوں رنڈیوں کو کام دلوایا، کئی تو اُن میں نامی ہیروئن بنیں۔ شریف گھروں کی بھی کئی لڑکیاں ابا جی کے پاس آئیں، اُنھیں بھی کام لے کر دیا۔ فلم کی کہانی میرے ابا ہی بتاتے تھے کہ اِس بار فلاں دوست کی گُڈی چڑھا دی جائے۔ اُن کے ایک اشارے سے ڈائریکٹر فلم کی کہانی تیار کر لیتے۔ یہاں کے پہلوانوں کی دشمنیوں پر اور دادا گیریوں پر سینکڑوں ہی فلمیں بنائیں۔‘

گوگا پہلوان نے بیچ میں سانس لیا تو میں نے پوچھا، ’لیکن فلم پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے، وہ کیسے برداشت کرتے تھے؟‘

 گوگے نے کہا، ’زیادہ پیسے تو ہماری جیب ہی سے جاتے تھے مگر اندرون لاہور کے دکان دار اور ساہوکار بھی دیتے تھے جن کے جان و مال کی حفاظت کا ذمہ میرے والد شاہیے نے لے رکھا تھا اور منڈی کی طوائفیں بھی بہت دیتی تھیں جس کے عوض یہ اُن کی عزت و آبرو کے محافظ تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ اِس کام میں ہمارے اُجاڑا بہت ہونے لگا۔ فلموں کی کمائی سب یا تو سینما والے کھا گئے یا فلموں کے ڈائریکٹر اور اداکار۔‘

’اچھا یہ ہیرا منڈی کے قبضے کا کیا قصہ ہوتا تھا؟‘ مَیں نے گوگے سے دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔

’خاص ہیرا منڈی یا شاہی محلہ کی محافظت کے ٹھیکے پر بہت دنگے ہوتے تھے،‘ گوگے نے بات جاری رکھی۔ ’کئی پہلوان زورآور منڈی کا قبضہ لینے آئے تھے۔ اُنھوں نے ہمارے بہت پہلوانوں کو چاقو، چھرا یا گولی مار کر مقابلے سے باہرکیا اور ہیرا منڈی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی نظرمیں صرف منڈی کا بھتہ اور لڑکیاں ہوتی تھیں کہ اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا لیں اور زیادہ تر ایسے کن ٹُٹوں کو پولیس شہہ دیتی تھی۔ اُنھی پیسوں اور لڑکیوں کے بل بوتے پر وہ بھی پنجابی فلمیں بنوانا چاہتے تھے۔ اِسی میں اُن کے ہاتھوں میرا بھائی، چچا زاد اور ہمارے کئی پہلوان مارے گئے، کچھ پولیس مقابلوں میں، مگر شاہیے نے جیتے جی قبضہ نہ دیا۔

’مگر کب تک؟ آہستہ آہستہ ابا جی کی علاقے پر حکومت کمزور پڑتی گئی۔ ساہوکاروں اور منڈی والیوں نے چھوٹے چھوٹے بدمعاش خود پالنے شروع کر دیے۔ اِس طرح ٹیکس کی رقم کم ہو گئی لیکن فلمیں بنوانا نہ چھوڑیں۔ اِس سے یہ ہوا کہ ہماری پہلے اپنی جمع پونجی ختم ہوئی، پھر جگہ بکنے لگی۔ یہ جو تم چھوٹا سا احاطہ دیکھتے ہو، یہ اِس سے دس گنا بڑا تھا۔ سارا بِک گیا، کچھ فلموں کے اداکار لے گئے، کچھ پولیس اور عدالت کے دلال لے گئے۔ ہمارے اپنے پٹھے مخالفوں کے مخبر بن گئے۔ جب پیسہ ختم ہو گیا تو اُس کے بعد نہ یہاں کوئی فلمی ڈائریکٹر آیا، نہ اداکار کی شکل نظر آئی، نہ کسی رنڈی نے پھیرا پایا۔ ابا اکیلے اِس کھٹیلے پر بیٹھے زمانے کو گالیاں دیتے رہتے تھے۔ ایک دن ابا شاہیا مر گیا۔ بھائی میرے پہلے ہی قتل ہو گئے تھے۔ مَیں نے حالات پر نظر ماری تو اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ دنیا سب پانی کا بلبلہ ہے۔ مَیں نے اُن کے مرنے کے بعد اپنے تمام دشمنوں سے صلح کر کے اُن کے لیے جگہ چھوڑ دی اور اپنی اِسی کُنج میں سُکڑ کر بیٹھ گیا۔

’جیسا زمانہ آ گیا تھا مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اب دادا گیری والے زمانے نہیں رہیں گے۔ تو بھائی مَیں نے وہ تمام دشمنیاں تیاگ دی ہیں۔ جو کچھ ہاتھی کے منہ سے زیرہ بچ گیا ہے، اُسے لیے بیٹھا ہوں۔ یہ رہا سہا اکھاڑہ اور یہ قبریں میرا سرمایہ ہیں۔ یہ سب قبریں میرے بھائیوں اور دوستوں کی ہیں، جو داداگیری میں کام آئے۔ مَیں اب سب کچھ سے اُکتا چکا ہوں۔‘

پھر گوگا آہ بھر کر کہنے لگا، ’یہ فلمی لوگ ہمارا سب کچھ کھا چکے ہیں، اب تو یہ خالی چارپائی بچی ہے۔ ہمارے کُنبے قبیلے کو اِنھوں نے ایسا لوٹا کہ رہے نام اللہ کا۔ ساہوکاروں سے ٹیکس وصول کرنے کے علاوہ کبھی کاروبار کیا نہ کرنا آیا تھا۔ پہلوانی اور مُرغ اور بٹیر لڑانے اور کبوتر اُڑانے کا شوق ہے، وہی آج تک چلتا ہے اور اب تو بس وہی چلتا ہے۔ سامنے والی دوچار دکانیں کرائے پر دے کر بیٹھ گیا ہوں۔ باقی سب پر لعنت بھیجی ہے۔ میاں سب کا اللہ مالک ہے۔‘

آخر ہم نے گوگا پہلوان کو سلام کیا، اور دائیں طرف سے ہو کر چھتہ بازار کو نکل آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی