اسامہ کے بعد کی القاعدہ

یاد رکھنا چاہیے کہ داعش جیسی تنظیم نے القاعدہ کے بطن سے ہی جنم لیا تھا۔ اگر اسے دنیا کے کسی بھی حصے میں موافق حالات میسر آتے ہیں تو یہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔

سعودی ملکیت کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایم بی سی (مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ سینٹر) کی جانب سے اسامہ بن لادن اپنے مصری نائب ایمن الظواہری کے پاس بیٹھے ہوئے 2020 کی اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔ بن لادن نے 11 ستمبر کو واشنگٹن اور نیویارک پر خودکش حملوں کے نتیجے میں امریکہ کو ہونے والے معاشی نقصانات کو اس ٹیپ میں سراہا جو مبینہ طور پر دسمبر میں ریکارڈ کیا گیا تھا (اے ایف پی/گریب فوٹو)

 القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو 10 برس گزر چکے ہیں۔ اس موقع پر ایک بار پھر بحث گرم ہے کہ ان کے جانے سے یہ دنیا دہشت گردی سے کتنی محفوظ ہوئی؟

کرونا وائرس کے ہلاکت خیز دور میں انسانی تخریب سے جنم لینے والی دہشت اور بربریت کا ذکر عجیب محسوس ہوتا ہے، لیکن دہشت گردی نے دنیا کا نقشہ جس طرح سے تبدیل کیا ہے، اس سے لاحق خوف ابھی ختم نہیں ہوا۔

ماسوائے افغانستان دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن دہشت گردی سے لاحق خطرات کم نہیں ہوئے۔ خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد کا منظرنامہ زیادہ تشویش کا سبب بن رہا ہے۔

طالبان کے القاعدہ سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا طالبان امریکہ سے کیا ہوا وعدہ ایفا کر پائیں گے کہ وہ القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کو افغانستان کی سرزمین استمال نہیں کرنے دیں گے؟ اگر وہ وعدہ پورا نہیں کر پاتے تو کیا القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں زور پکڑیں گی؟

افغانستان کی اپنی سلامتی تو اہم ہے ہی، لیکن یہ سوال پاکستان کی اندورنی سلامتی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ چین، روس، وسط ایشیا کے ممالک کے تحفظات اس کے علاوہ ہیں۔

القاعدہ گذشتہ دس سالوں میں کمزور ہوئی ہے، لیکن اس کے دوباہ ابھرنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ داعش جیسی تنظیم نے القاعدہ کے بطن سے ہی جنم لیا تھا۔ اگر اسے دنیا کے کسی بھی حصے میں موافق حالات میسر آتے ہیں تو یہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔

دنیا کی دیگر انتہا پسند تحریکوں کے لیے ایک رہنما کا کردار تو یہ ادا کر ہی رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان سمیت اس کے دہشت گردی کے خلاف اتحادی القاعدہ کو شکست دینے کے دعویدار ہیں لیکن القاعدہ، مذہبی انتہا پسند حلقوں میں یہ موضوع بھی زیر بحث ہے کہ اگر ایمن الظواہری کی بجائے کوئی اور اسامہ بن لادن کی جگہ لیتا تو کیا القاعدہ اتنی ہی کمزور ہوتی؟

ایمن الظواہری کی قیادت پر سب سے بڑا اعتراض اس کی عمر، زیادہ علمی رجحان، تنظیم سازی اور آپریشنل منصوبہ بندی جیسی صلاحیتوں کے فقدان پر کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف ایمن الظواہری کے حامی کہتے ہیں کہ پوری دینا کی مخالفت اور داعش جیسے بڑے چیلنج کے باوجو د القاعدہ کے وجود کے برقرار رہنے کا کریڈیٹ بھی انہیں ہی جاتا ہے۔

ان افواہوں کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی کہ ایمن الظواہری زندہ ہیں بھی یا نہیں۔ ان کی دل کے دورے سے مرنے کی متعلق متضاد اطلاعات گذشتہ چند مہینوں سے آ رہی ہیں۔ ان کی آخری ویڈیو جس میں انہوں نے روہنگیا مسلمانوں سے متعلق بیان دیا سے ان کے مرنے کی خبروں کے بارے میں مزید ابہام پیدا ہوا ہے۔

بہرحال یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایمن الظواہری کے بعد اس تنظیم میں جان پڑتی بھی ہے یا نہیں۔ اگر ان کی موت کے بعد اسی کے ہم وطن سیف العادل سربراہ بنتے ہیں تو کیا القاعدہ کی آپریشنل صلاحیتوں میں فرق پڑے گا؟ اس کی شہرت القاعدہ کے چیف آپریشنل کمانڈر کے طور پر رہی ہے۔

ایمن الظواہری کی القاعدہ کی بقا کے لیے حکمت عملی یہ رہی کہ انہوں نے منسلک تنظیموں اور اپنے مختلف علاقائی ابواب کے ساتھ تعلقات پر ازسر نو غور کیا اور انہیں مزید خودمختار بنایا اور دوسرا افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنایا۔

ابو بکر بغدادی نے خلافت کا اعلان کر کے القاعدہ کی نظری، فکری اور تنطیمی صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس نقصان کو کم کرنے کے لیے الظواہری اسامہ بن لادن کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہے اور پہلے ملا منصور اختر اور اب ملا ہیبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس پالیسی سے القاعدہ کو خطے میں رہنے کا موقع ملا اور ایسی اطلاعات بھی آتی رہیں کہ طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران القاعدہ کی مشاورت بھی شامل رہی اور القاعدہ نے اپنے لیے ایک کم متحرک کردار کا انتخاب کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حکمت عملی سے مرکزی القاعدہ، یمن، مغرب، عراق اور شام میں اپنے حلقوں سے رابطے میں رہی اور مستقبل کے افغانستان میں بھی اپنا کردار اور حصہ باقی رکھا۔

مرکزی القاعدہ کے لیے ایک بڑا چیلنج نئی قیادت کا ہے، جو گذشتہ 20 سالوں میں ابھر نہیں سکی اور یہی امریکہ کے اعتماد کی وجہ ہے کہ مستقبل میں القاعدہ کا خطرہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔

جہاں تک القاعدہ کی اس خطے میں موجودگی کا تعلق ہے تو اس نے اپنے مشاورتی اور ایک رہنما کے کردار کو بڑھایا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان میں اس کے مختلف دھڑوں اور چھوٹے گروپوں کی شمولیت میں القاعدہ کا کردار بھی بتایا جاتا ہے۔ اس کا جنوبی ایشیا کے لیے ایک الگ سے باب القاعدہ برصغیر کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس کے بانی سربراہ کا نام عاصم عمر تھا، جس کا تعلق بھارتی حیدر آباد سے تھا اور 2020 میں افغانستان میں مارا گیا۔ یہ باب 2014 میں بنایا گیا تھا اور مقصد داعش کے پھیلتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا اور القاعدہ کے حامی گروپوں کو متحد کرنا تھا۔

یہ گروپ بنگلہ دیش میں سیکولر اور آزاد رائے کے حامل بلاگرز پر حملے کرتا رہا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی کارروائی پاکستان میں تھی جب اس سے منسلک نیوی کے سابق افسروں نے نیول ڈوکیارڈ سے فرائیگیٹ F-22P کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی۔

القاعدہ برصغیر نے پاکستان میں آخری حملہ 2017 میں کیا اور یہ کراچی میں پولیس پر تھا۔ اس کے بعد سے اس نے کسی حملے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن سندھ اور پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے محکموں نے اس سے منسلک کئی دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور  کچھ کو مقابلوں میں مارنے کے دعوے ضرور کیے ہیں۔

گرفتار ہونے والوں میں عمر جلال چانڈیو کا نام بھی شامل ہے جو ایمن الظواہری کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے بتایا جاتا ہے۔ گذشتہ سال گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے اس گروپ سے منسلک چھ مشکوک افراد کو ٹیرر فنانسنگ کے کیس میں سزا سنائی تھی۔  

آنے والے سالوں میں القاعدہ کا مستقبل اس کے مختلف حلقوں کی کارکردگی پر منحصر ہے، جو خودمختار تو ہو گئے ہیں لیکن اپنی بقا کے ساتھ مرکزی تنظیم کا مستقبل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق