سعودی عرب کے آثار قدیمہ: ’جو اہرامِ مصر سے بھی پہلے بنائے گئے‘

شمال مغربی سعودی عرب میں دریافت ہونی والی پتھر کی تعمیرات جنہیں ’مستطیل‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہیں جتنا کہ پہلے انہیں مانا جاتا رہا ہے۔

رائل کمیشن فار العلا (آر سی یو) نے اس دریافت کو 'مستطیل' کا نام دیا ہے۔ (تصاویر: ادارہ ایریل آرکیالوجی سعودی عرب ٹوئٹر )

شمال مغربی سعودی عرب میں دریافت ہونی والی پتھر کی تعمیرات جنہیں ’مستطیل‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہیں جتنا کہ پہلے انہیں مانا جاتا رہا ہے۔

تعمیرات پر تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ مصر کے اہرام سے بھی پہلے کی ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پتھر کے زمانے کے آخری دور میں ہوئی یہ دیوقامت تعمیرات سات ہزار سال سے زیادہ پرانی ہیں۔

عرب  نیوز کے مطابق آثار قدیمہ کی اس دریافت سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ مستطیلیں دنیاکی قدیم ترین یادگاروں میں شامل ہیں۔

رائل کمیشن فار العلا (آر سی یو) نے اس دریافت کو 'مستطیل' کا نام دیا ہے۔ اگرچہ ان مستطیلوں کے وجود کے بارے میں سب کو پہلے سے علم ہے تاہم نئی تحقیق کے دوران ان کی پہلے سے دگنی تعداد میں دریافت ہوئی ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار کے قریب ہیں۔

ہر مستطیل کے آخر میں ایک دیوار ہے جو دیگر  طویل دیواروں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سے ان دیوقامت مستطیلوں کے صحنوں کے سلسلے وجود میں آ جاتے ہیں جن کی لمبائی20 میٹر سے لے چھ سو میٹر تک ہے۔

ہر مستطیل کے مرکزی داخلی راستے کے باہراس کی بنیاد میں گول یا نیم گول سیل بنائے گئے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان مستطیلوں نے تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ یہ مستطیلیں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ایک ہی زمانے سے ہے۔

اس دریافت پر ہونے والی تحقیق یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اس پراجیکٹ کا حصہ ہے جو وہ العلا اور خیبر کے صوبوں میں کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ آر سی یو کے آثار قدیم  پروگرام میں شامل ہے۔

پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ماہر آثار قدیمہ اور تحقیق کی شریک مصنفہ میلیسا کینیڈی نے این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ'ہم انہیں یاد گاری لینڈ سکیپ خیال کرتے ہیں۔ یہ تقریباً دو لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ بڑے علاقے میں پائی گئی ہیں اور یہ شکل میں بالکل ایک جیسی ہیں۔ اس لیے شاید ان کے حوالے سے عقیدہ یا فہم بھی ایک جیسے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا