باجوڑ: لائبریری تو مل گئی پر کتابیں نہیں ہیں

خار کی لائبریری کو دوبارہ فعال کروانے کے لیے علاقے میں سرگرمِ عمل ’دی تھینکرز ایسوسی ایشن باجوڑ (دی ٹیب)‘ نے ایک مہم شروع کی۔

پاکستان کے سابق قبائلی علاقہ جات کا ذکر عموماً دہشت گردی، طالبانائزیشن اور فوجی آپریشنز کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ایک عرصے تک یہاں عسکریت پسندوں کا قبضہ رہا اور پھر ان کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشنز کیے گئے۔ آپریشنز کے خاتمے کے بعد کچھ عرصے سے یہاں کے تعلیم یافتہ، باشعور نوجوان ایک الگ ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔

یہ نوجوان کتاب دوستی اور پڑھنے، پڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان یہاں بند لائبریری کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ باجوڑ کے ہیڈکوارٹر خار میں 1999 میں قائم ہونے والی لائبریری 2008 کے فوجی آپریشن کے بعد سے بند پڑی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی شروعات کی گئی تو سکیورٹی اداروں کو عمارتوں کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے جہاں سکول اور دوسرے تعلیمی اداروں میں رہائش اختیار کی وہاں خار کی لائبریری کو بھی وہ اپنے استعمال میں لائے۔

وقت کی ضرورت کے تحت شاید ان کا اقدام درست تھا کیونکہ ایمرجنسی تھی اور عمارتوں کی کمی تھی۔ اب جبکہ آپریشن مکمل ہوچکا ہے، ایمرجنسی ختم ہوچکی ہے اور حالات معمول پر آ رہے ہیں تو لائبریری کو دوبارہ فعال نہ کرنے کا جواز نہیں رہتا۔

چنانچہ باجوڑ کے صدر مقام خار کی لائبریری کو دوبارہ فعال کروانے کے لیے علاقے میں سرگرمِ عمل ’دی تھینکرز ایسوسی ایشن باجوڑ (دی ٹیب)‘ نے ایک مہم شروع کی۔ مقامی انتظامیہ، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کو الگ الگ خطوط لکھے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔

پھر سوشل میڈیا پر بھرپور مہم کے نتیجے میں حکام نے نوجوانوں کی تعمیری سوچ کو سراہا اور 11 سال بعد مقامی لائبریری کو عام عوام کے لیے کھول دیا۔ لائبریری تو کھل گئی البتہ اس میں کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی کو علم نہیں کہ فوج کی آمد کے بعد کتابیں کہاں گئیں؟ باجوڑ کے نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور لائبریری کی عمارت ملنے کے بعد وہاں کے لیے کتب جمع کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو