عراقی پارلیمنٹ میں موجود ایران کے حامی مائیک پومپیو سے کیا کہتے؟

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو رواں ہفتے بغداد کے دورے سے لوٹے ہیں جہاں انہوں نے عراقی قیادت پر ایران سے اپنے تعلقات منقطع کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو رواں ہفتے بغداد کے  غیراعلانیہ دورے سے لوٹے ہیں ۔ فائل تصویر: اے ایف پی

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو رواں ہفتے بغداد کے دورے سے لوٹے ہیں جہاں انہوں نے عراقی قیادت پر ایران سے اپنے تعلقات منقطع کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔ پومپیو نے انہیں بتایا کہ امریکہ اس امر کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایران، عراق میں موجود امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنانے سے باز رہے۔ یہ وہی فوجی اڈہ ہے جس کے بارے میں صدر ٹرمپ نے حال ہی میں فخریہ انداز میں شیخیاں بگھاری تھیں۔

امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ عراق اپنے مشرقی شیعہ اکثریتی ملک سے بجلی خریدے۔

نیویارک ٹائمز نے بغیر کسی لگی پٹی کے، اس دورے کے بارے میں بتایا کہ کیسے اس حوالے سے رازداری برتی گئی۔ اگر ایسا ہی تھا تو امریکی وزیر خارجہ کم از کم عراقی پارلیمان میں ایران کے سب سے بڑے حامی رکن حادی الامیری سے ہی ملاقات کر لیتے۔

میں نے شیعہ سیاست دان الامیری سے بغداد میں پومپیو کی آمد سے چند روز قبل ملاقات کی تھی۔ 64 سالہ بدمزاج اور سخت طبیعت کے مالک حادی الامیری شیعہ ملیشیا کے سابق رہنما بھی ہیں جن کو فارسی زبان پر عبور حاصل ہے اور ان کے ایرانی انقلابی گارڈز ’قدس فورس‘ کے اہم کمانڈر قاسم سلیمانی سے قریبی تعلقات ہیں، یہ وہی کمانڈر ہیں جن کو امریکہ نے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ میں سب سے خطرناک دہشت گرد قرار دیا ہے۔

اتنا ہی نہیں وہ آٹھ سالوں تک صدام حکومت کے خلاف ایران کی جنگ میں بھی تہران کے ساتھ کھڑے رہے۔

میں تصور کر سکتا ہوں کہ الامیری پومپیو سے کیا بات کرتے کیوں کہ میں بغداد میں ان کے دفتر میں چائے پر ان سے ملاقات کر چکا ہوں۔

الامیری نے مجھے بتایا: ’قابل ترس امریکہ ٹرمپ کے پاگل پن کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ نے یہاں (عراق میں) ایک لاکھ 80 ہزار فوجیں اتاریں جو ٹینکوں اور دیگر جدید حربی ساز و سامان سے لیس تھیں لیکن ہم نے پھر بھی ان کی خواہشات اور ارادوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ آج ہم خود انحصاری کے تحت ایسے عراق کی تعمیرِ نو چاہتے ہیں جو خطے میں مضبوط اور خود مختار ملک ہو اور ہم اپنی عوام کی بہبود اور خوشحالی کے لیے خطے کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم یہ تعلقات نہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بنانا چاہتے ہیں اور نہ ہی سعودی عرب یا ایران کو خوش کرنے کے لیے۔ ہم امریکہ کو خطے کی چوکیداری کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی دوسرے ممالک کو اپنا قرض اتارنے کے لیےعراق کو میدان جنگ بنانے کی اجازت دیں گے۔‘

الامیری نے مجھے بتایا: ’آپ میرے الفاظ لکھ لیں، یہ ایران کے (مفادات کے) لیے نہیں ہے کیوں کہ میں ایک عراقی قوم پرست پہلے ہوں اور شیعہ بعد میں۔‘

تاہم عراق میں الامیری کے سیاسی حریف ان کے اس دعویٰ سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ وہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا جسے ’البدر بریگیڈ‘ بھی کہتے ہیں، کے نمایاں رہنما رہ چکے ہیں، اس ملیشیا نے 2014 میں داعش کے خلاف اُس وقت مزاحمت کی تھی جب عراق کی سرکاری فوج کو عالمی دہشت گرد تنظیم کے جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب خود ساختہ اور نام نہاد دولتِ اسلامی (داعش) کے خلاف جنگ میں عراق کی مزاحمتی تحریک ’الحشد الشعبی‘ نے نہ صرف کُرد عسکریت پسندوں اور عراق کی سرکاری فوج  سے اتحاد کر لیا بلکہ بلاواسطہ امریکی فوج سے بھی ہاتھ ملا لیا جو داعش کے جنگجوؤں پر بمباری کر رہی تھی۔

حادی الامیری کا کہنا تھا: ’امریکہ اب پہلے جیسا امریکہ نہیں رہا، وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ وہ اپنے پڑوس میں وینزویلا اور کیوبا کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرسکا تو وہ یہاں کیا کر لے گا۔ ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ پہلے کانگریس کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ امریکہ کی طاقت سے خائف ہیں تو الامیری کا کہنا تھا کہ اگر وہ یہاں لڑتے ہیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، جس طرح انہیں ویتنام میں حزیمت اٹھانا پڑی تھی۔

انہوں نے کہا: ’ان کو اپنی مرضی دوسرے ممالک پر تھوپنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کو لبنان، شام اور فلسطین میں کوشش کرنے دیں، لیکن سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور نیتن یاہو غزہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اسرائیلی جنوبی لبنان یا گولان میں بھی ایسا نہیں کر سکتے، میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ جس کسی نے بھی عراق میں ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ نقصان ہی اٹھائے گا۔‘

الامیری جو وزیرِ ٹرانسپورٹ رہ چکے ہیں، اب پارلیمان میں شیعہ جماعتوں کے اتحاد ’یونائیٹڈ عراقی الائنس‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ محبِ وطن ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

بقول ان کے: ’ہم عراق کی ریاست کا حصہ ہیں، ہمیں عراقی حکومت کا حصہ بھی تصور کیا جاتا ہے اس لیے جو کوئی بھی ہم پر حملہ آور ہو گا تو عراقی عوام ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں گے۔ ہمیں ان (ایران) کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور ہم میں ایسا کرنے کے لیے قابلیت اور وسائل موجود ہیں۔ میں نے ایک بار امریکی جنرل جارج کیسی سے ملاقات کے دوران ان سے کہا تھا کہ ہم آپ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ آپ قبضے کی طاقت پر انحصار کرتے ہیں لیکن آپ کو  یہاں سے انخلا کرنا ہی پڑے گا جبکہ ہمیں ہمیشہ ادھر ہی رہنا ہے۔‘

حادی الامیری نے داعش کے خلاف اپنی فوج کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا: ’2014 میں ہماری پوری سرکاری فوج جو امریکیوں سے تربیت یافتہ تھی، نے داعش کے خلاف پسپائی اختیار کر لی تھی۔ موصل، صلاح الدین، کِرکوک، انبار اور دیالا کے بڑے حصے داعش کے قبضے میں چلے گئے یہاں تک کہ ان کے جنگجوؤں نے دارالحکومت بغداد کا محاصرہ کر لیا۔ یہ وہ موقع تھا جب ہر مؤرخ کہہ رہا تھا کہ عراق ہمیشہ کے لیے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا لیکن میں اس وقت بھی پُر امید تھا کہ ہم یہ جنگ جیتیں گے۔ جب فوج کا مورال صفر سے بھی نیچے تھا اور امریکی فوج بھی اُس وقت تک جنگ میں نہیں کودی جب تک کہ عراقی شیعہ ملیشیا نے داعش کے خلاف پیش رفت نہیں کی تھی۔ ہم نے جو بھی آپریشنز  کیے ان (امریکی اور عراقی افواج) کی مدد کے بغیر کیے۔ ہم نے رمادی، صلاح الدین اور فلوجہ کو ان کی مدد کے بغیر آزاد کرایا حتیٰ کہ امریکیوں نے فلوجہ جانے کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے محض رمادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا جبکہ موصل کو تو انہوں نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔‘

الامیری پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیرِ ٹرانسپورٹ مبینہ طور پر ایرانی طیاروں، جن میں فوجی دستے اور بھاری اسلحہ موجود تھا، کو عراق کی فضائی حدود سے گزر کر شام تک پہنچنے میں مدد فراہم کی تھی، وہ کئی بار اس الزام کی تردید کر چکے ہیں، تاہم جو انہوں نے مجھے بتایا وہ اس کے برعکس تھا۔

ان کا کہنا تھا: ’جب میں وزیرِ ٹرانسپورٹ تھا اُس وقت بغداد میں امریکی سفیر مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمیں ایرانی فوجی طیاروں کو شام جانے سے روکنا ہے تو میں نے جواب دیا کہ امریکہ ہمیں کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ دنیا میں ایک عالمی ادارہ (اقوام متحدہ) ہے جو بین الاقوامی پروازوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ داعش کے رکن دہشت گرد ہیں جنہیں امریکہ نے دنیا بھر سے اکٹھا کیا ہے اور ایک دن وہ یورپ تک پہنچ جائیں گے تب امریکہ ان کے خلاف کاروائی کرے گا اور دنیا نے دیکھا کہ چھ ماہ بعد ایسا ہی ہوا۔‘

تاہم الامیری اس بات سے متفق ہیں کہ ایران نے شام میں صدر  بشار الاسد کی حکومت اور روس کی مدد کی ہے۔  

انہوں نے کہا: ’ایران نے ایک اہم وقت پر شام کی حمایت کی اور دہشت گردوں کی پیش قدمی کو روکا اور پھر روسی بھی اس میں ملوث ہوگئے۔ شام کی اس جنگ میں حزب اللہ نے بھی  مدد کی۔ ہماری مقبول مزاحمتی تحریک نے عراق میں ایسا ہی کردار ادا کیا جیسا کہ حزب اللہ نے شام میں کیا تھا۔‘

یہ ایک دلچسپ تقابل ہے، اگرچہ شام کی فوج ضرور کہنا پسند کرے گی کہ ایرانیوں کے بجائے روسی ان کے سب سے اہم فوجی اتحادی تھے لیکن ہم سب ایسے سیاسی بیانات سے واقف ہیں۔

حادی الامیری کے مطابق: ’اگر امریکہ مستقبل میں ہمارے خلاف ہو جائے تو عراقی فوج ان کے خلاف متحد ہو جائے گی۔ انہوں نے ایک ہی وقت میں عراق اور شام کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن عراق اب متحد ہے۔ فرقہ وارانہ تعصب ختم ہو گیا ہے۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ الامیری فرقہ پرست ہے لیکن اب میں شیعوں کے مقابلے میں سنیوں میں زیادہ مقبول ہوں۔ سعودی بہت بیوقوف ہیں اور محمد بن سلمان نے یمن میں ایک بچکانہ حرکت کی ہے۔ امریکی کہتے تھے کہ یمن جنگ دو ہفتوں تک ختم ہو جائے گی۔ پھر 40 دن، پھر چار ماہ اور اب یہ پانچ سال بعد بھی بے قابو ہے۔ سعودی ہر روز شکست کھا رہے ہیں۔‘

’ایرانی اپنے مفادات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ عراقی بھی اپنے مفادات اور فرائض کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پر حملہ ہوتا ہے تو یقینی طور پر روس اور چین غیر جانبدار نہیں رہیں گے۔ تہران بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔ ایرانی عوام کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زیادہ دباؤ میں مزید متحد ہو جاتے ہیں۔‘

االامیری کہتے ہیں کہ وہ اوپن مارکیٹ اور آزاد معیشت کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایران میں زیادہ تر معیشت کا کنڑول نجی شعبے کے پاس ہے جس میں عراق کو فراہم کی جانے والی بجلی بھی شامل ہے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی سے تعلق پر الامیری کا کہنا تھا کہ داعش کے ساتھ جنگ ​​کے دوران انہوں نے ایرانی قوم کی طرف سے عراقیوں کی بہت مدد کی، وہ ایک اچھا مشیر تھا۔

ان کے بقول ایرانی مشیروں کی عراق میں تعداد 100 سے زیادہ نہیں تھی اور ان میں سے بھی کئی عراقی زمین پر شہید ہوئے۔ انہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

حادی الامیری کا موقف ایرانیوں کے بیانیہ سے ملتا جلتا ہے یہاں تک کہ تاریخ کے حوالے سے بھی ان کی سوچ ایران جیسی ہی ہے۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ عراق میں ایران کے ترجمان ہیں تو وہ اس پر ہنس پڑے۔ جاتے ہوئے میں نے انہیں دو بزنس کارڈز دیے، ایک ان کے لیے اور دوسرا قاسم سلیمانی کے لیے کیوں کہ میں اس شخص کے ساتھ انٹرویو کرنا چاہوں گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر