کیا پاکستان کا قومی لوگو تیسری بار تبدیل کرنا مناسب ہو گا؟

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان کے لوگو کو بدلا جائے، کیوں کہ یہ اب متروک ہو چکا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے، اور یہ لوگو کب اور کیسے بنا تھا؟

(چوہدری فواد ٹوئٹر اکاؤنٹ)فواد چوہدری کے خیال میں موجودہ لوگو عہدِ حاضر کے پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتا 

وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے گذشتہ دنوں اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ریاست پاکستان کے لوگو یعنی طغرے میں تبدیلی کی جانی چاہیے اور پٹ سن اور چائے کی جگہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو جگہ دی جائی چاہیے۔

اس حوالے سے انہوں نے مجوزہ ڈیزائن میں تبدیلی کے لیے تجاویز بھی مانگی ہیں۔ پاکستان کا موجودہ طغرہ 1954 میں منظور کیا گیا تھا، تب متحدہ پاکستان تھا اور ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے چائے اور پٹ سن اس کی اہم زرعی پیداوار تھیں جنہیں ریاستی طغرے میں جگہ دی گئی۔

1971 میں پاکستان دو لخت ہو گیا اور اس سانحے کو بھی اب 50 سال ہو چکے ہیں۔ اب ہمارے وزیر با تدبیر فواد چوہدری نے تجویز دی ہے کہ پاکستان کے قومی لوگو کو تبدیل کیا جانا چاہیے کیونکہ چائے اور پٹ سن ہماری پیداوار نہیں ہیں ۔ باوجود اس کے کہ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا میں چائے در آمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ سالانہ 49.8 کروڑ ڈالر کی چائے در آمد کرتا ہے مگر پھر بھی اسے قومی طغرے میں قومی پیداوار ظاہر کر کے جگہ دی گئی ہے۔

اس طرح پٹ سن کی پیداوار میں بھارت پہلے، بنگلہ دیش دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت دنیا کا 50 فیصد پٹ سن پیدا کرتا ہے۔ ہمارا نمبر اس فہرست میں 17 واں ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سالانہ پٹ سن در آمد کرتا ہے۔

پاکستان کا موجودہ لوگو یعنی طغرہ 1954 میں اختیار کیا گیا تھا۔ پہلے مجوزہ سرکاری طغرے کے اوپر ’مملکت پاکستان‘ اور نیچے ’حسبنااللہ و نعم الوکیل‘ کی آیت کندہ تھی۔ ایک طرف چائے کی پتی، دوسری طرف گندم کا خوشہ اور درمیان میں کپاس کے پھول تھے مگر اسے لاگو نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہت سے لوگوں کو شاید معلوم نہیں ہو گا کہ پہلا سرکاری لوگو جس کی منظوری قائد اعظم کی جانب سے دی گئی اور انہوں نے اس پر دستخط بھی کیے اسے 1948 میں جاری کیا گیا جس میں اوپر چاند تارا بنا تھا۔ چاند میں پاکستان لکھا گیا تھا جبکہ اس کے نیچے کھلی ہوئی کتاب ہے جس پر کشتی کا گمان ہوتا ہے اور نیچے کی جانب انگریزی میں ’پاکستان گورنمنٹ‘ کے الفاط درج ہیں۔

پاکستان کے پہلے دونوں لوگو کیسے وجود میں آئے اس حوالے سے ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ اپنی کتاب ’دا کالونیل اینڈ نیشنل فارمیشن آف دی نیشنل کالج آف آرٹس۔ لاہور۔ 1870-1960‘ میں لکھتے ہیں کہ جھنڈے، اور قومی ترانے کے بعد ریاست میں قومی ہم آہنگی کی سب سے اہم علامت قومی لوگو ہوتی ہے۔ 1947 میں لیاقت علی خان جو اس وقت متحدہ ہندوستان کے وزیر خزانہ تھے، انہوں نے اپنے ایک نمائندے کے ذریعے نامور مصور اے آر چغتائی سے درخواست کی کہ وہ قائد اعظم کی ہدایات کی روشنی میں نئی مملکت کے شایان شان اس کا لوگو بنائیں۔

یہ ہدایات صرف اتنی تھیں کہ اس نشان میں ایک ہلال ضرور ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے چغتائی کو دو ماہ کا وقت دیا گیا۔ مقررہ وقت میں انہوں نے اپنا ہدف مکمل کر لیا اور 18 مئی 1948 کو قائد اعظم نے اے آرچغتائی کے بنے ہوئے ڈیزائن کی منظوری دے دی۔

اے آر چغتائی کو ہی پاکستان کے پہلی ڈاک ٹکٹ، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے لوگو ڈیزائن کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ لوگو 1954 تک رائج رہا اس کے بعد موجودہ لوگو کے لیے قومی سطح کا ایک مقابلہ کروایا گیا اور اس مقابلے میں میو سکول آف آرٹس لاہور کے ایک سابق طالب علم معراج محمد کا بنایا ہوا لوگو منتخب کیا گیا۔

معراج محمد کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا اور انہوں نے 1935 سے 1938 کے درمیان میو سکول آف آرٹس، موجودہ (نیشنل کالج آف آرٹس یا این سی اے) سے کمرشل پینٹنگ میں تین سالہ ڈپلوما کر رکھا تھا۔ ان کے بنائے ہوئے لوگو کی منظوری اس وقت کی دستور ساز اسمبلی نے تحلیل ہونے سے پہلے دے دی تھی۔

معراج محمد بعد ازاں پنجاب زرعی کالج فیصل آباد کے ہیڈ آرٹسٹ رہے جو آج کل زرعی یونیورسٹی کہلاتا ہے۔ وہ آرٹسٹ جس نے پاکستان کا قومی لوگو ڈیزائن کیا اس کی خدمات کو نہ تو قومی سطح پر سراہا گیا اور نہ ہی تاریخ میں کہیں اس کا تذکرہ آیا اس طرح یہ قومی ہیرو گمنامی کی موت مر گیا۔

پاکستان کا موجودہ لوگو پاکستان کی نظریاتی اساس کے ساتھ اس کی معیشت، ثقافت، ورثے اور اس کے رہنما اصولوں کا آئینہ دار ہے جو چار حصوں پر مشتمل ہے۔ سب سے نیچے قائداعظم کے دیے گئے راہنما اصول، ایمان، اتحاد، نظم، لکھے گئے ہیں، ان کے اوپر پھولوں کی ایک مالا گولائی میں دی گئی ہے جس کے اوپر چاند تارا بنا ہوا ہے۔ چاند تارا اور لوگو کا سبز رنگ اسلام کا آئینہ دار ہے۔

درمیان میں چار خانے ہیں جن میں کپاس، گندم، چائے اور پٹ سن کی مصنوعات ظاہر کی گئی ہیں۔ پھولوں کی مالا چنبیلی کی ہے جو پاکستان کا قومی پھول ہے۔ مالا کی بناوٹ اور نیچے کا وہ حصہ جس میں قائد اعظم کے رہنما اصول لکھے گئے ہیں وہ مغل آرٹ سے مشابہہ ہیں۔

کسی بھی ریاست کا قومی نشان اس کے قومی وقار کا آئینہ دار ہوتا ہے جس میں اس کی تاریخ، مذہب، ورثہ، آرٹ، معیشت اور قومی امنگوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہی حال قومی جھنڈے کا بھی ہوتا ہے۔ پیو کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے 196 ممالک میں سے 64 ملک ایسے ہیں جن کے جھنڈے میں مذہبی نشان دیے گئے ہیں ان میں 48 فیصد ممالک مسیحی اور 33 فیصد مسلمان ہیں۔ کم و بیش یہی رجحان قومی لوگو کے حوالے سے بھی ہے۔ پاکستان کا قومی لوگو بھی اس کے مذہب، تاریخ اور معیشت کا آئینہ دار ہے۔

بعض ماہرین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگرچہ پٹ سن اور چائے اس وقت ملک میں بہت کم پیدا ہوتی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں اس کی پیدا وار بڑھ جائے تو کیا اس وقت پھر قومی لوگو بدل دیا جائے گا؟

اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفراللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں سرکاری اداروں کے لوگو تواتر سے بدلتے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا یہ پانچواں اور سینیٹ کا چوتھا لوگو چل رہا ہے۔ قومی لوگو بھی بدلنے کی روایت پی ٹی آئی کی حکومت نے ڈال دی تو پھر یہ رکے گی نہیں، ہو سکتا ہے ہر آنے والی حکومت یہ مشق دہرائے اس لیے بہتر یہی ہے کہ پرانے لوگو کو برقرار رکھا جائے۔ زراعت کا اب بھی قومی پیداوار میں بڑا حصہ ہے۔ جہاں تک سائنس و ٹیکنالوجی کی بات ہے تو ابھی تک اس شعبے میں ہمارے حصے میں کوئی کارہائے نمایاں نہیں ہیں پھر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو جگہ دینے کے لیے لوگو بدلنا حماقت ہی کہلائی جائے گی۔‘

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’بنگلہ دیش بننے کے بعد چائے اور پٹ سن ہمارے ہاں کم پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ ہماری تاریخ اور زرعی ملک ہونے کی علامتیں ہیں۔ اگر مشرقی پاکستان کو ہم اپنی تاریخ سے نکال دیں تو پھر پاکستان بھی نہ بنتا۔ 1971 کے واقعات اگرچہ دلخراش ضرور ہیں لیکن اس بنیاد پر لوگو تبدیل کرنے کی باتیں ذہنی پسماندگی ہی کہی جا سکتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر آپ سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے لوگو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ جو سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کا لیڈر ہے اس کے لوگو میں تو عقاب ہے۔ ہندوستان کے لوگو میں شیر ہے۔ اس لیے پاکستان کا لوگو ایک تاریخ کا آئینہ دار ہے جسے چھیڑنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ