حاملہ خواتین روزے رکھیں یا چھوڑیں؟

ڈاکٹر اور اسلامی سکالر متفق ہیں کہ حاملہ خواتین اپنی صحت کو دیکھتے ہوئے روزے رکھنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

تصویر بشکریہ پکسر بے

راولپنڈی کی رہائشی 28 سالہ نگینہ (فرضی نام) کا روزہ تھا، وہ صبح سے کئی مرتبہ قے کر چکی تھیں، سحری میں کھایا پیا سب ضائع ہو چکا تھا اور ان کی طبیعت اچھی خاصی بگڑ رہی تھی۔

انہیں اندازہ تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے مگروہ روزہ توڑنا نہیں چاہتی تھیں۔

دوپہر کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو وہ قریبی لیڈی ڈاکٹر کے کلینک پہنچ گئیں۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد ان سے سوال کیا: کیا آپ حاملہ ہیں؟ نگینہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ’پہلا مہینہ ہے۔‘

ڈاکٹر نے دوائیاں لکھتے ہوئے نگینہ کو مشورہ دیا: ’بہترہے آپ اس سال روزے نہ رکھیں۔‘

نگینہ جیسی کئی حاملہ خواتین کو ان کے معالج روزے سے گریز کی ہدایت کرتے ہیں، خصوصاً حمل کے پہلے تین مہینوں میں خواتین کو اکثر قے کی شکایت رہتی ہے۔ ایسے میں ان کے لیے روزہ رکھنا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔

ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر سمیرا عمبرین کے مطابق روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا انحصار حاملہ خواتین کی صحت پر ہوتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’بحیثیت گائناکالوجسٹ میں کسی حاملہ خاتون کو روزے سے منع کرنے میں بہت احتیاط برتتی ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ حاملہ خاتون روزے سے بہت زیادہ تکلیف محسوس کرے یا ہونے والے بچے کو نقصان کا خدشہ ہو تو ایسے میں روزے رکھنا ٹھیک نہیں۔

ڈاکٹر سمیرا عمبرین کے مطابق: ’حمل کے پہلے تین مہینوں میں حاملہ خواتین کو اکثر قے کی شکایت ہوتی ہے اور ایسی صورت میں ان کے لیے روزہ رکھنا مناسب نہیں۔‘

ایک صحت مند اور نارمل انسان کی صحت اور جسم پر روزہ رکھنے سے کوئی برا اثر نہیں پڑتا، بلکہ طبی ماہرین روزے کو ا نسانی صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔

تاہم حاملہ خواتین کا روزے کے حوالے سے معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔ نو ماہ کے حمل کے دوران کچھ مہینے ایسے ہوتے ہیں جن میں ایک حاملہ خاتون کے لیے روزے رکھنا اس کی اپنی یا ہونے والے بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن ضروری نہیں ہر حاملہ خاتون کے ساتھ ایسا ہی ہو۔ اکثر خواتین حمل کے دوران بھی رمضان المبارک کے فضائل و برکات سے محروم نہیں ہونا چاہتیں اور روزہ رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

ڈاکٹر سمیرا عمبرین کا کہنا تھا کہ حمل کا ساتواں مہینہ آنے والے بچے کی صحت کے حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔

راولپنڈی میں پریکٹس کرنے والی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر صوبیہ ثمر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حمل کے ساتویں مہینے میں حاملہ خاتون کی ایک وقت کی خوراک بھی کم ہو جائے تواس سے بچے کی نشو نما پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا حمل کے ساتویں مہینے میں بچے کی نشو نما بہت تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے، جس کے لیے ماں کو زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صوبیہ ثمر نے کہا کہ وہ عام طور پر اپنی حاملہ مریضوں کو ساتویں مہینے میں روزے نہ رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں۔

لیکن حمل کے صرف پہلے تین اور ساتواں مہینہ ہی اس لحاظ سے اہم نہیں ہوتے۔ حاملہ خواتین کے روزے رکھنے کے حوالے سے دوسرے بھی کئی عوامل ہیں جنہیں بہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔

گائناکالوجسٹ ڈاکٹرکنویہ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد خون کی کمی کا شکار ہے اور اگر ایک حاملہ خاتون ایسی صورت حال سے دوچار ہو تو اس کے لیے روزے رکھنا مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا موسمِ گرما کے روزے طویل ہوتے ہیں اور ایسے میں حاملہ خواتین کے لیے انہیں رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ رمضان کو شروع ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں اور ان کے کلینک میں کئی حاملہ خواتین آچکی ہیں جن کو روزے کے باعث مسائل کا سامنا تھا۔

 ڈاکٹر صوبیہ ثمرنے کہا روزے میں انسانی جسم میں پانی کی کمی بھی ہو جاتی ہے جس سے پیشاب کی نالی میں انفیکشن (یو ٹی آئی) ہو سکتا ہے، جو خواتین میں عام ہے۔

انہوں نے کہا روزے دار حاملہ خواتین کو یو ٹی آئی کی شکایت بار بار ہو سکتی ہے، جو ان کی تکالیف میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

ڈاکٹر سمیراعمبرین کے مطابق تمام خواتین کو حمل کے دوران ایک جیسی تکالیف نہیں ہوتی بلکہ یہ ہر خاتون میں مختلف ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: حاملہ خاتون کے خون میں شکر کی مقدار یا فشار خون بہت زیادہ ہونے کی صورت میں معالج انہیں روزے رکھنے سے روکتے ہیں۔

انہوں نے حاملہ خواتین کو مشورہ دیا کہ اگر وہ کسی تکلیف سے دوچار نہیں ہیں تو انہیں روزے ضرور رکھنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ حاملہ خواتین کو چند باتوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، جن میں متوازن غذا کا لینا،ہلکی پھلکی چہل قدمی یا ورزش، زیادہ جسمانی مشقت سے گریز اورسحر و افطار کے درمیان زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال شامل ہے۔

مذہب ِاسلام اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

اسلام آباد میں رِفا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروف مذہبی سکالر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ اسلام آسانی کا مذہب ہے اور یہ کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا۔

انہوں نے بتایا: ’قرآنِ کریم میں جس مقام پر (سورہ البقرہ میں) روزے کی تاکید کی گئی ہے، اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو اس فرض کی ادائیگی سے چھوٹ بھی دی ہے۔

علامہ شبیر حسین میسامی نے کہا کہ اگر روزہ رکھنے سے حاملہ خاتون یا ہونے والے بچے کی صحت کو نقصان کا ڈر ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ انسان ایک حد تک تکلیف برداشت کر سکتا ہے اور حاملہ خاتون نارمل حالت میں نہیں ہوتی۔

ان کے مطابق اگر حاملہ خاتون روزہ چھوڑ یا توڑ دیں تو انہیں ایک کے بدلے صرف ایک روزہ ہی رکھنا ہو گا۔ کوئی کفارہ یا گناہ نہیں ہو گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے عین مطابق ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت