ترکی میں ترقی کرتے افغان پناہ گزین

پناہ گزینوں کے لیے نئے کاروبار شروع کرنے کے سلسلے میں آسانیاں متعارف کروانے بعد ترکی میں جائیداوں کی خریداری میں 82 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حاجی یعقوب برہان اپنے ریسٹورنٹ میں۔ تصویر: اےایف پی

30 سال قبل جب افغان تاجر حاجی یعقوب برہان نے جنگ اور تشدد کی لہر کے باعث اپنا ملک چھوڑا تھا تو ان کے ساتھ ان کا پورا خاندان اور تمام جمع پونجی بھی تھی۔

 وہ سعودی عرب کی جانب روانہ ہوئے تھے، جہاں انہوں نے ایک ریسٹورنٹ کھولا۔ لیکن پناہ گزین ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کو سکول میں داخلہ ملنا مشکل تھا۔ پھر وہ دبئی چلے گئے لیکن وہاں رہائش کے اخراجات پورے کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔

پھر انہوں نے دو سال پہلے ترکی میں رہائش اختیار کی۔ وہ استنبول کے علاقے ایسنورٹ میں ایک ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پناہ گزینوں کے کاروبار کی آزادی کو یقینی بنانے والے ترک ماحول کا فائدہ اٹھایا۔

اپنے کباب ریسٹورنٹ میں موجود 52 سالہ برہان نے خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا : ’میرے ریسٹورنٹ میں 15 لوگ کام کر رہے ہیں جن میں ترک، افغان اور ایرانی شامل ہیں۔ میں اب تک ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالرز خرچ کر چکا ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میرے 60 فیصد سے بھی زیادہ گاہک افغان ہیں جبکہ دیگر لوگوں میں عرب، ایرانی اور ترک شامل ہیں۔‘

برہان کے مطابق کاروبار میں دلچسپی رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے ترکی میں بہت مواقع ہیں جہاں وہ اپنی مہارت اور جمع پونجی کے ساتھ آ کر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے پناہ گزینوں کے نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے آسان طریقہ متعارف کروایا گیا ہے۔ ترکی میں تقریباً 40 لاکھ پناہ گزین رہائش پذیر ہیں جن میں سے زیادہ تعداد شامی شہریوں کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہاں افغانیوں کی تعداد دیڑھ لاکھ تک ہے۔

کچھ افراد کی جانب سے پناہ گزینوں کو ترکی پر بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن برہان جس علاقے میں رہتے ہیں اس کی پُر رونق کاروباری سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پناہ گزینوں نے ترکی کی معیشت میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

برہان کے ریسٹورنٹ میں نصب ٹی وی پر افغان چینلز ترکش ڈرامے دکھا رہے تھے اور صارفین افغان کابلی پلاؤ سے محظوظ ہو رہے تھے۔

برہان ٹانگ پر ٹانگ دھرے قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے کہتے ہیں: ’اس علاقے میں  یہ واحد افغان ریسٹورنٹ ہے۔‘

مشکل معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے حکومت کی جانب سے گذشتہ سال ستمبر میں ترکی میں شہریت حاصل کرنے کے لیے جائیداد خریدنے کی مقرر کردہ فیس 10 لاکھ ڈالرز سے کم کرکے دو لاکھ 50 ہزار ڈالرز کر دی گئی تھی۔ 

ترکش سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ (ٹی یو آئی کے) کے مطابق اس فیصلے کے بعد ترکی میں غیر ملکیوں کی جانب سے جائیداوں کی خریداری میں 82 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گو کہ افغان پناہ گزین اس تعداد کا ایک چھوٹا حصہ ہیں لیکن اس بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ جنگ زدہ ملک کو چھوڑ کر بھاگنے والے سب لوگ مفلس اور نادار نہیں ہیں۔

محمد یاسین حمیدی ایک افغان ہیں جو استنبول کے نواحی علاقے میں جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سال ان کی مکان فروخت کرنے کی شرح گذشہ سال کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’لوگ افغانستان میں اپنی جان اور مال کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ یا آپ کے بچے اغوا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے تجارت پیشہ افراد اپنی دولت یہاں لے آتے ہیں۔‘

حمیدی کے گاہکوں میں افغانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

غیر ملکیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترکی میں تعمیر ہونے والے رہائشی منصوبوں میں یک لخت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ہاؤسنگ ڈیویلپرز اینڈ انویسٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق 2018 میں ترکی میں غیر ملکیوں نے 4.6 ارب ڈالرز کی پراپرٹی خریدی ہے، جبکہ اس سال یہ رقم 10 ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔

 

ترکی میں رہنے والے کئی پناہ گزین اپنے ساتھ مختلف اقسام کے کام میں مہارت بھی ساتھ لاتے ہیں جو ملکی افرادی قوت میں کردار ادا کرتی ہے۔

ہادی اخلاص ایک نقش نگار ہیں جو افغانستان کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے جنگ سے متاثرہ افغانستان کو آٹھ سال پہلے چھوڑا تھا۔

 وہ پہلے پڑوسی ملک پاکستان گئے اور اس کے بعد ترکی آگئے۔ اب وہ استنبول کے گرینڈ بازار میں قیمتی پتھروں اور انگوٹھیوں پر اسلامی اور سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی کندہ کاری کرتے ہیں۔ یہ بازار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔

اخلاص نے اے ایف پی کو بتایا: ’ماضی میں کچھ ترک تاجر دوسرے ممالک سے کندہ کردہ پتھر درآمد کرتے تھے لیکن اب میں یہی کام یہاں کر رہا ہوں۔‘

اخلاص کا پارٹنر ایک ترک ہے جو مارکیٹنگ میں ان کی مدد کرتے ہیں اور گرینڈ بازار میں افغانوں کی 42 دکانوں میں سے ایک چلا رہے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں: ’میں اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہتا ہوں، میں ترکوں کو بھی اپنا فن سکھانا چاہوں گا۔‘

گرینڈ بازار کے ایک اور کونے میں ایک افغان ماہر جوہری خلیل نوری انگوٹھیاں، نگینے اور جھمکے فروخت کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر وہ شے دستیاب ہے جو کابل کی کسی دکان میں مل سکتی ہے۔

نوری کہتے ہیں: ’میں ایک جوہری ہوں۔ میں دستکاری میں مہارت رکھتا ہوں اور میں یہیں پر اپنا کام کرنا چاہتا ہوں۔‘

نوری جنگ سے تباہ حال افغانستان سے آنے کے بعد 12 سال سے استنبول میں یہی کام کر رہے ہیں۔

دوسری جانب برہان پُر امید ہیں کہ ان کا کاروبار اچھا چلتا رہے کیونکہ یہاں کافی افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہاں پر ایسے لوگ بھی ہیں جو افغان کھانوں کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا