بھارتی انتخابات اور ٹرین میں خاموشی

آج سے بیس پچیس سال قبل علیگڑھ یونیورسٹی کی طالب علمی کے دوران، انتخابات کے نتائج کا رخ سمجھنے کا ایک مثبت طریقہ تھا ٹرین کا سفر۔ علیگڑھ سے سوار ہوکر الہ آباد، کانپور، لکھنئو سے گزرتے ہوئے، چند مسافروں کےساتھ گفتگو کرکے ہوا کا رخ سمجھ میں آجاتا تھا۔ صرف اتنا جاننا ضروری ہوتا تھا کہ یہ مسافر کس ذات یا برادری سے تعلق رکھتا ہے اور کس حلقے کا ووٹر ہے۔

ماضی میں بھی آج کی طرح یوپی اور بہار، سیاسی طور پر خاص طور پر الیکشن کے زمانے میں، سب سے اہم صوبے ہوا کرتے تھے۔ آذادی کے پہلے 50 برسوں میں لگ بھگ سارے وزیر اعظم، یوپی سے ہی آئے تھے۔ اس زمانے میں سیاسی اختلافات کے باوجود لوگ ٹرینوں میں کھل کر اظہار رائے کرتے تھے۔

لیکن دو ہفتے قبل بھارت میں ٹرین میں سفر کے دوران میں نے ایک مختلف ماحول دیکھا۔ نہ صرف یہ کہ لوگ انتخابات سے متعلق اپنے موقف کا اظہار کرنے سے گریز کر رہے تھے، وہ یہ بھی بتانے سے ہچکچا رہے تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔

میرے لیے یہ بات یوں اہم ہے کہ یہ عوامی تبصرہ دراصل زیادہ تر صحیح سیاسی پیشگوئی ثابت ہوتا تھا۔

مجھے اب بھی یاد ہے کہ وی پی سنگھ نے جب 1989 میں راجیو گاندھی کے خلاف محاذ آرائی کرلی تھی اور انتخابات ہونے والے تھے تو میں نے عام لوگوں سے ٹرین میں جو گفتگو کی، اس کی بنیاد پر یہ ظاہر ہوگیا کہ اس بار کانگرس پارٹی کو شکست کا سامنا ہے۔اور ہوا بھی وہی۔

اسی طرح بہار کے صوبائی الیکشن کے دوران جب میں بہار میں کچھ وقت گزار کر واپس دلی لوٹا، تو چند سینیئر صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے جب انتخابات کا رخ جاننا چاہا تو میں اسی ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر جو تجزیہ بیان کیا، وہ انتخابات کے بعد صحیح ثابت ہوا۔

مگر اس بار کی ہوا بدلی ہوئی ہے۔ لوگوں کی خاموشی کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یا تو مودی کے بھارت میں عام لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں یا یہ خاموشی 23 مئی کو نتائج کی صورت ایک طوفان کی شکل میں سامنے آنے والی ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہےکہ عقل مند لوگ ٹی وی کے مباحثے اور سوشل میڈیا کے زہر سے تنگ آچکے ہیں اور اپنی ذاتی سیاسی فکر کو اپنے پاس ہی رکھنا پسند کر رہے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ہندوستانی صحافی، تجزیہ کار اور دیگر انتخابات کے ماہرین، اپنی پیشگوئیاں بھلے ہی کر رہے ہوں مگر میں اس بار خاموش رہوں گا، بالکل ٹرین کی مسافروں کی طرح، جنہوں نے اپنی رائے کو صرف ووٹ کے ذریعے ظاہر کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر