افغانستان سے انخلا کے بعد القاعدہ اور داعش سر اٹھا سکتی ہیں: امریکہ

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرپرسن مارک ملی نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد داعش اور القاعدہ کے ’ممکنہ طور پر‘ واپس سرگرم ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

فروری 2016 میں افغانستان کے ننگرہار صوبے میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف ایک آپریشن۔ پینٹاگون نے خدشہ ظاہر کیا ہے امریکی انخلا کے بعد شدت پسند تنظیمیں واپس سر اٹھا سکی ہیں (اے ایف پی فائل)

پینٹاگون کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دو سال کے اندر ہی شدت پسند تنظیمیں القاعدہ اور داعش ’ممکنہ طور پر‘ امریکی سرزمین کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔

وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرپرسن مارک ملی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ نائن ایلون کی 20ویں برسی تک امریکہ کے افغانستان سے جانے کے دو سال کے اندر اور اس سے کم وقت میں ہی شدت پسند تنظیمیں واپس سرگرم ہو سکتی ہیں۔

یہ انتباہ ایک ایسے وقت پر آیا جب ڈیموکریٹ پارٹی کی اکثریت والے امریکی ایوان نمائندگان نے 2002 کی اس قرارداد کو کالعدم قرار دینے کے حق میں ووٹ کیا ہے، جس سے حکومت کو عراق پر حملہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

اس قدم کو 2001 میں افغانستان پر حملے کے لیے منظور ہونے والی زیادہ وسیع قرارداد پر نظرثانی کے پیش خیمے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  

آسٹن اور ملی نے یہ انتباہ وزارت دفاع کے 2022 بجٹ کے حوالے سے سینیٹ اپروپریئشنز کمیٹی کی ایک سماعت کے دوران دی۔

سینیٹر لنسے گراہم نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے افغانستان میں دوبارہ سراٹھانے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے کے امکانات کی درجہ بندی کریں۔

آسٹن نے کہا: ’میں اس خطرے کو درمیانے درجے کا کہوں گا۔ سینیٹر، میں یہ بھی کہوں گا کہ انہیں (دہشت گرد تنظیموں کو) ممکنہ طور پر اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے دو سال کا وقت لگے گا۔‘

افغان جنگ میں لڑنے والے سابق فوجی مارک ملی نے کہا کہ وہ آسٹن کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے دوبارہ بحال ہونے کے امکانات کم یا زیادہ کی بجائے ’درمیانے درجےً‘ کے ہیں۔

ملی نے کہا: ’میرے خیال میں اگر کچھ چیزیں ہوں، جیسے حکومت کا خاتمہ یا افغان سکیورٹی فورسز کی تحلیل تو ظاہر ہے خطرات زیادہ ہوجائیں گے، مگر ابھی میں کہوں گا امکانات درمیانے ہیں اور وقت دو سال کے آس پاس۔‘

صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت افغانستان میں آخری امریکی فوجیوں کی واپسی یکم مئی سے شروع ہوگی اور 11 ستمبر کو نائن ایلون کی 20ویں برسی سے قبل ختم ہوجائے گی۔

اس اعلان کے وقت افغانستان میں اندازوں کے مطابق 2500 سے 3500 امریکی فوجی اور سات ہزار نیٹو کے فوجی تھے جنہیں ملک چھوڑ کر جانا تھا۔

افغانستان سے فوجیوں کا انخلا 20 سالہ جنگ کا اختتام ہوگا جس میں 22 سو سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور 20 ہزار سے زائد زخمی جبکہ اس پر اب تک ایک کھرب ڈالرز سے زائد خرچ ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینٹاگون پہلے اس بات کا اشارہ کر چکا ہے کہ فوجیوں کی واپسی ابھی آدھی مکمل ہوئی ہے۔

انخلا کا اعلان کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مارنے اور القاعدہ کو عراق اور افغانستان میں کمزور کرنے کے اپنے ہدف پورے کر لیے ہیں اور اب سفید فام برتری کی سوچ امریکی سرزمین کے لیے ’سب سے مہلک خطرہ ہے۔‘

ملی نے کہا کہ گذشتہ سال امریکہ کی جنوبی سرحد سے غیر قانونی طور پر آنے والوں کی تعداد میں 160 فیصد اضافے سے قومی سلامتی کو مجرموں اور دہشت گردوں سے خطرہ ہے جبکہ اگر امریکہ نے کمیونسٹ چین کے 2050 تک امریکہ پر فوجی سرپرستی حاصل کرنے کے منصوبے کو نہیں روکا تو آنے والے نسلوں کو چین سے بھی ’بڑا خطرہ‘ ہوگا۔

انہوں نے کہا: ’یہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم چین کے فوجی عزائم کی برابری کریں تاکہ امن قائم رہے اور ان کو روکا جائے۔‘

ان کے مطابق: ’اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ میری ذاتی اور پشہ ورانہ رائے ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہوں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ