سعودی عرب نئی ایرانی قیادت کو ’زمینی حقائق‘ سے جانچے گا: شہزادہ فیصل

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ  وہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق جواب طلب معاملات کے بارے میں ’انتہائی فکر مند‘ ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ ان کا ملک نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی پالیسی کو ’زمینی حقائق‘ کی کسوٹی پر پرکھے گا۔

منگل کو ویانا کے دورے کے دوران اپنے آسٹریائی ہم منصب کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان کہا: ’ہمارے خیال میں کسی بھی معاملے پر ایران کی خارجہ پالیسی کی لگام سپریم لیڈر (آیت اللہ علی خامنہ ای) کے ہاتھ میں ہے، لہذا تہران کے لیے ہمارا نقطہ نظر اور بات چیت زمینی حقائق پر مبنی ہے اور اس بات سے قطع نظر کہ حکومت کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہے، ہم اسی پیمانے سے ایران کی نئی حکومت کو پرکھیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق جواب طلب معاملات کے بارے میں ’انتہائی فکر مند‘ ہیں۔

شہزادہ فیصل بن فرحان اقوام متحدہ کے نگران ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا حوالہ دے رہے تھے، جس کے مطابق ایران میں غیر اعلان شدہ جوہری مقامات پر یورینیم کے ذرات پائے گئے ہیں۔

سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی ایران کے جوہری پروگرام پر قدغن لگانے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں جب کہ تہران کا دعویٰ ہے کہ اس کا پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا خیال ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا ایک خفیہ اور مربوط پروگرام تھا، جسے 2003 میں روک دیا گیا تھا۔

ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے پیر کو کہا تھا کہ وہ خلیجی عرب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ابراہیم رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد تہران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پہلے ہی ایسی علامات موجود ہیں جن کے مطابق امریکہ کا مقصد معاہدے کو مزید سخت بنانا ہے۔

اتوار کو کسی بڑی پیشرفت کے بغیر ملتوی ہونے والے مذاکرات اس بات کا اشارہ ہیں کہ معاہدے کی بحالی کے حوالے سے امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔

امکان ہے کہ ابراہیم رئیسی معاہدے پر عمل درآمد کے بدلے پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ اٹھائیں گے۔

دریں اثنا آسٹریا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر شیچلن برگ نے حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پر کیے جانے والے مسلسل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

شہزادہ فیصل نے کہا کہ حوثی ملیشیا مکمل جنگ بندی کے اقدامات کو مستقل طور پر مسترد کرکے کشیدگی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور آسٹریا کا خطے کے استحکام کے حوالے سے یکساں موقف ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا