روزہ خوروں کو بھی کیا کیا مصیبتیں جھیلنا پڑتی ہیں!

پاکستان میں 1981 سے ایک ایسا قانون نافذ ہے جو ایک ڈکٹیٹر نے خود کو اسلام پسند ثابت کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے نافذ کیا تھا۔

فوٹو، اے پی

دنیا بھر میں تو لوگ مقدس تہواروں ،مہینوں اور مقامات کا احترام اپنے عقیدے کی بنیاد پر اپنی مرضی سے ،خوش دلی سے اور کسی دباﺅ یا قانون سازی کے بغیر کرتے ہیں۔

لیکن اس کا کیا کیاجائے کہ وطن عزیز میں وہ سب کچھ ہوا جس کا دنیا میں کہیں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں 1981 سے ایک ایسا قانون نافذ ہے جو ایک ڈکٹیٹر نے خود کو اسلام پسند ثابت کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے نافذ کیا تھا کہ آج کی طرح اس زمانے میں بھی مذہب کو ہی استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنایا جاتا تھا۔

جنرل ضیانے خود کو امیرالمومنین بنانے کے لیے زکوٰة و عشر اور حدود آرڈیننس سمیت جو اسلامی قوانین نافذ کیے ان میں احترام رمضان آرڈیننس بھی شامل تھا۔ رمضان المبارک کااحترام تو ہم نے اس آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے بھی دیکھا تھا اور ایک اسلامی معاشرے میں کوئی بھلا کیسے تصور کر سکتا ہے کہ وہ شعائر اسلامی کااحترام نہیں کرے گا۔

ہم بچپن میں دیکھتے تھے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو بازاروں میں ہوٹلوں اور اشیائے خور و نوش کی ریڑھیوں کے گرد پردے لگا دیے جاتے تھے اور روزے داروں کے احترام میں لوگ ازخود سرعام کھانے پینے سے گریز کرتے تھے۔

پھر ہم نے یہ دیکھا کہ آرڈیننس نافذ ہونے کے بعدروزہ نہ رکھنے والوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گویا پولیس اور انتظامیہ کو عوام کی زندگی اجیرن کرنے کا ایک نیا بہانہ مل گیا اور انہیں کمائی کا ایک نیا ذریعہ بھی میسر آ گیا۔ پھر اخبارات میں خبریں آنے لگیں کہ رمضان المبارک کے دوران انتظامیہ کو ہدف دے دیاگیا ہے کہ وہ اس مہینے کے دوران روزے خوروں سے کتنا جرمانہ وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرائے گی۔

یہ قانون اب بھی نافذ العمل ہے اور اب بھی رمضان المبارک کے دوران ’روزہ خوروں‘ کی گرفتاریوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پولیس ریلوے سٹیشنوں اور لاری اڈوں کے باہر سے تو ’سرعام‘ کھانے پینے کے الزام میں غریب مسافروں کو گرفتار کر لیتی ہے۔بہت سی کینٹینیں بند کرا دی جاتی ہیں، لیکن مہنگے ہوٹلوں میں خصوصی اجازت کے تحت ’سب کچھ‘ دستیاب ہوتا ہے۔

‎1985-86کے دوران ہم روزگار کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے اور ہمارا کھانے پینے کاسلسلہ ہوٹلوں سے ہی وابستہ تھا۔ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک ہم سبھی کچھ مختلف ہوٹلوں سے حاصل کرتے تھے۔کچھ مخصوص علاقے تھے اور دکانیں تھیں جہاں ہم باقاعدگی سے ناشتے اور کھانے کے لیے جاتے تھے۔ شاہ نور سٹوڈیوز کے باہر ایک دکان سے دفتر جاتے ہوئے ہم روزانہ ناشتہ کرتے تھے۔لبرٹی مارکیٹ کے ایک ہوٹل سے کھانا کھاتے تھے اور واپسی پر کبھی لکشمی اور کبھی بھاٹی سے رات کاکھانا کھایا جاتا تھا۔

رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے لیے بہت سے مسائل لے کرآتا تھا۔ احترام رمضان آرڈیننس کے نتیجے میں ہوٹل بند کر دیے جاتے تھے۔ناشنہ اور کھانا باقاعدہ مسئلہ بن جاتا تھا۔ ایسے میں کچھ کاروباری لوگ خدائی خدمت گار کے طور پر بھی میدان میں آ جاتے تھے اور ہماری دعائیں لیتے تھے۔مثلاً شاہ نور سٹوڈیو زکے قریب محلہ سید پورہ میں ہم جس مکان میں کرائے دار کے طور پر رہائش پذیر تھے جب پہلا رمضان آیا تو مالک مکان بلو بادشاہ کی والدہ محترمہ نے ’چھڑے‘ کرائے داروں کے لیے رمضان پیکج کا اعلان کر دیا جو آج کے حکمرانوں کے اعلان کردہ رمضان پیکج سے کئی گنا بہتر تھا ۔

ان کی جانب سے ہمیں تین روپے کا آلو والا پراٹھا ناشتے میں فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔نرخ زیادہ تھے لیکن پھر بھی یہ پراٹھا ہمیں قبول تھا۔ یہی پراٹھے اردگرد کے مکانوں میں رہنے والے دیگر چھڑے بھی صبح صبح آکر تین تین روپے میں خریدتے تھے۔

اسی طرح کچھ نیک دل حضرات دوپہر دو بجے ہی سموسے پکوڑے تلنا شروع کر دیتے تھے جو ہمارے لیے دوپہر کے کھانے کی سہولت ہی قرار پاتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ ظالم انتظامیہ نے چار بجے سے پہلے افطاری کے سامان کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ ایسے میں لبرٹی مارکیٹ کے قریب واقع یونائیٹڈ کرسچن ہاسپٹل (یو سی ایچ) ہماری پناہ گاہ بنا۔ دوپہر 12 بجے کے بعد وہاں خاصی رونق ہوتی تھی۔کھانا سستا تھا اور لذیذ بھی بہت۔ مسیحی ہسپتال میں معیار کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کابھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ بعض باریش افراد بھی وہاں چہرے پر کپڑا ڈال کر کھانا کھانے آتے تھے اور مسیحیوں کو دعائیں دیتے تھے۔

‎پھر ایک روز ہم وہاں گئے تو ہوٹل والے نے کھانا دینے کے بعد ہمیں چائے دینے سے انکار کر دیا۔اس کا کہنا تھا کہ ’جناب یہاں بہت سختی ہو گئی ہے، ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم ’محمڈنز‘ کو کھانا نہ دیں۔گذشتہ روز پولیس والے پانچ روزہ خور محمڈنز کو یہاں سے گرفتار کرکے لے گئے تھے۔‘

اپنی طرف سے تو اس نے ہمیں بہت خوفزدہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہمارے ایمان اور ہماری ثابت قدمی کو متزلزل نہ کر سکا۔مسیحی ہسپتال کے ذکر پر ہمیں نامور سرائیکی دانشور اور شاعر حسن رضا گردیزی کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔

حسن رضا گردیزی صاحب کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ایک روز رمضان کے مہینے میں بہاولپور جارہے تھے۔ راستے میں بستی ملوک کے قریب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ ڈرائیور نے ٹائر تبدیل کرنے کے لیے گاڑی روکی تو حسن رضا گردیزی نے سڑک کنارے کھڑے ہو کر سگریٹ سلگا لیا۔قریب ہی بس کے انتظار میں کھڑے ایک دیہاتی مسافر نے اعتراض کیا کہ ’رمضان کا مہینہ ہے اور آپ سگریٹ پی رہے ہیں؟‘

کوٹ پینٹ میں ملبوس حسن رضاگردیزی نے مسکرا کر کہا کہ ’میں روزے نہیں رکھتا میں کرسچن ہوں۔‘

دیہاتی مطمئن ہو کر دوبارہ بس کا انتظار کرنے لگا۔اسی دوران ڈرائیور نے ٹائر تبدیل کر لیا اور گردیزی صاحب کو مخاطب ہو کر کہا، ’شاہ جی چلیں، ٹائر تبدیل ہو گیا۔‘

شاہ صاحب گاڑی کی طرف بڑھے تو وہ دیہاتی تیزی سے ان کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’آپ تو کہہ رہے تھے کہ میں کرسچن ہوں، ڈرائیور آپ کو شاہ جی کیوں کہہ رہا ہے؟‘

شاہ جی مسکرائے اور بولے، ’لالہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں کرسچن سید ہوں!‘

‎قارئین محترم، بس یونہی برسبیل تذکرہ کچھ کہانیاں یاد آگئی تھیں جو آپ کے گوش گزار کر دیں۔ وگرنہ ہم بھی رمضان آرڈیننس کا بہت احترام کرتے ہیں اور آپ کو بھی اس کا ہمیشہ احترام کرنا چاہیے۔کیا ہوا اگر یہ ضیاء الحق کی نشانی ہے، آخر ان کی کئی اور نشانیاں بھی تو ہم نے سینے سے لگا رکھی ہیں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ