بینڈ پروفیسر اور باراتی گدھا

گاؤں سے بھاگے دو نوجوانوں کے ساتھ پیش آیا ایک دلچسپ قصہ۔

تصویر: علی اکبر ناطق

کچھ دن پہلے یونیورسٹی جاتے ہوئے رستے میں ایک چائے کے ہوٹل پر نظر پڑی۔ ہوٹل کے ایک کونے میں شیشے کی بوسیدہ الماری میں میدے کی پیسٹریاں اور برفی کی ڈلیاں رکھی تھیں اور ساتھ ہی دودھ کا کڑاہا تندور پر چڑھا پک رہا تھا۔

اِس کھوکھا نما ہوٹل کو دیکھتے ہی میں ایک دم ٹھٹکا، تھوڑی دیر رُکا، پھر کچھ یاد کر کے ہلکا سا مسکرایا اور وہیں پڑاؤ ڈال کر بیٹھ گیا۔

یہاں دو چار پرانی کرُسیاں اور ایک چارپائی دھری تھی۔ میں کرسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کھجی سے بُنی چارپائی پر بیٹھا اور چائے کا آرڈر دے کر چوتھائی صدی پرانے ایک دلچسپ واقعے کو یاد کرنے لگا۔ آپ بھی سُن لیجیے۔

تب میں سولہ سال کا چِکنا لونڈا تھا اور اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد فارغ اور مفلس تھا۔

گاؤں میں میرا ایک دوست صادق عرف سدی ہوتا تھا۔ اُس کی ایک آنکھ ذرا بھینگی تھی اور شیطان پرلے درجے کا تھا۔ بھوکے ننگے ہم دونوں ہی تھے۔ ہم نے صلاح ٹھہرائی کہ لاہور چلتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، اپنی کما کر کھاتے ہیں اور لنڈے بازار سے کپڑے لتے خرید کر لاتے ہیں۔

شالامار باغوں اور شاہی قلعوں کی سیر بھی کریں گے اور داتا دربار سے لنگر بھی کھائیں گے۔

یہ گرمیوں کے دن تھے۔ ہم بغیر ٹکٹ کے ریل میں گھُس گئے۔ کبھی ڈبے میں، کبھی باتھ روم میں چھُپتے چھپاتے اور ٹکٹ چیکر سے آنکھ مچولی کھیلتے گھنٹے میں لاہور وارد ہوئے۔

رات اِچھرہ کے ایک چھوٹے پارک میں مچھروں سے تلوار بازی کرتے گزری۔ اگلے دن نہار منہ دونوں مزنگ چوک کے مزدوروں کے اڈے پر جا کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر میں ایک آدمی آیا، اُس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور ہم دونوں پر آن ٹکائی۔ پھر پاس آیا اور بولا، ’آپ مزدوری کریں گے؟‘

ہم نے ہاں میں سر ہلایا۔ کہنے لگا ’تین بجے کام ختم ہو جائے گا، 60 روپے مزدوری ہے لیکن آپ کو70 دوں گا اور کھانا بھی مفت اور شاندار قسم کا۔‘

میں نے پوچھا، کام کیا ہے؟ کہنے لگا بہت آسان ہے، وہیں جا کر بتاؤں گا۔ بس یوں سمجھ لو تھوڑی دیر پیدل چلنا ہے اور بس۔

ہم بہت خوش ہوئے۔ تھوڑی دیر کیا، ہم تو پیدا ہی پیدل ہوئے تھے، چاہے سو میل چلا لیتا۔ اُس نے ہم دونوں کے علاوہ اِنہی شرائط پر ایک اور مزدور بھی پکڑا، یہ تیسرا مزدور کچھ مسکین سا آدمی تھا، جیسے آنکھوں پر فالج گرا ہو۔

اُس بندے نے ہم سب کو ایک ٹانگے پر بٹھایا اور چل پڑا۔ ٹانگہ فیروز پور روڈ پر چلتا گیا، مسلم ٹاؤن موڑ، ماڈل ٹاؤن، والٹن سب پیچھے چھوڑا حتیٰ کہ چونگی امر سدھو سے دائیں مُڑ کر کاہنہ کی طرف ہو گیا۔

اُن دنوں یہ سب جگیں ویران ہوتی تھیں اور اُن کے بارے میں کچھ علم نہ تھا کہ کون کون سے گاؤں ہیں۔ ہمیں تشویش ہوئی اور طرح طرح کی فکروں نے گھیرنا شروع کیا۔

اُدھر ٹانگہ ہے کہ رُکتا نہیں، چلا ہی جاتا ہے۔ بالاخر ہم نے گھبرا کر نیچے چھلانگ لگا دی اور کہا ’بھاڑ میں جائیں آپ کے پیسے اور مزدوری اور کھانے، ہم تو آگے نہیں جائیں گے۔‘

تب اُس صاحب نے ٹانگہ رکوایا اور بہلانے لگا ’دیکھو بیٹا آپ میرے بیٹوں کی طرح ہیں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔‘

میں نے کہا، ’بیٹوں کی طرح ہی ہیں، بیٹے تو نہیں ہیں نا؟ اللہ جانے تمھیں کون سا شوق ہے کہ ہمیں بَلی چڑھاؤ گے۔‘

وہ بولا ’بیٹا خدا جانتا ہے آج تک مجھے کوئی ایسا شوق نہیں ہوا جس کی قیمت کسی معصوم کو ادا کرنا پڑے۔ دراصل کام شہر میں نہیں، یہیں کاہنے میں ہے، ابھی تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے۔‘

اِس بہلاوے میں ہم پھر ٹانگے پر بیٹھ گئے حتیٰ کہ کاہنہ پھاٹک کے پاس ایک چھوٹے سے بازار میں آ رُکے۔ تب وہ بزرگ صورت ہمیں ایک دکان میں لے کر داخل ہوئے۔

دکان کے ماتھے پر ’پروفیسر دین محمد بینڈ والا‘ کا بورڈ لگا تھا۔ دکان بہت کھلی تھی، اندر آٹھ، دس لوگ بینڈ باجے کی وردیاں پہنے بیٹھے تھے اورسو قسم کے طوطیاں، باجے، بینڈ، شہنائیاں، مُرلیاں، بانسریاں اور پتہ نہیں اِسی طرح کی کیا کیا سوغاتیں دیواروں پر لٹکی پڑی تھیں۔

دکان میں داخل ہو کر ہم کھڑے ہی تھے کہ اُس بندے نے ایک آدمی کو مخاطب کیا ’لے چاچا دین محمد، بندے پورے ہو گئے ہیں۔‘ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوا، ’چلو پُتر جلدی جلدی وردیاں پہن لو، وقت بہت کم رہ گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اُس کی بات سُن کرہم بِدکے کہ یہ ہمیں کہاں لے آیا اور اُس آدمی سے کہا ’میاں ہم نواب اورشُرفا لوگ ہیں، یہ تُو ہم سے کیا کرانے لگا ہے۔ ہم یہ کام نہیں کریں گے۔‘

اُس نے پھر منت سماجت شروع کی بیٹا ہمارے بندے کم ہیں،ایک دن ہمارے ساتھ لگا لو، کچھ حرج نہیں۔ مگر ہم صاف مُکر گئے اور کہا ایسا واہیات کام ہم تو نہیں کریں گےاور نہ ہمیں کرنا آتا ہے، پہلے کیوں نہ بتایا؟ ہمیں وآپسی کا کرایہ دو،یہاں نہیں رُکیں گے۔

ہمارا سخت انکار دیکھ کر پروفیسر دین محمد آگے بڑھا اور کہنے لگا دیکھو بیٹا مزدوری میں کوئی عیب نہیں، یہاں ہرکوئی کبھی نہ کبھی نواب رہا ہے، پھر یہ ماتھے پر تو لکھا نہیں کہ کب مراثی نواب بن جائے اور نواب مراثی ہو جائے۔ سب عزت ذلت حلال کی کمائی میں ہے۔ تین چار گھنٹے کی تو بات ہے۔ رہی کام کے نہ آنے کی بات تو کون سا ہر کوئی ماں کی ناف سے سیکھ کے نکلتا ہے۔ کام کوئی بھی ہو، مشق کرنے سے آتا ہے۔ یہ وردی پہنواور ہمارے ساتھ ہو لو۔ شادی والے گھر سے اچھا کھانا بھی ملے گا، پیسے بھی ملیں گے اور زیادہ محنت بھی نہیں کرنی ورنہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ کرایہ بھی پلے سے لگا کے وآپس جانا ہو گا۔ اب جو تمھاری صلاح۔

لو بھئی ہم دونوں مفلس حال، خالی جیبیں، وآپس پھرنے کا فاصلہ کم سے کم پچیس کلو میٹراور دن بھر کی خجالت الگ۔ ہم فکر مندی میں پڑ گئے۔ ذرا جب حالات کی سختی پر غور کیا تو نوابی کچھ مدھم پڑی۔

ہم دونوں نے آنکھ ہی آنکھ میں ہینچ پینچ کی تو نفسِ غیرمطمئن نے اطمینان کا ارادہ کیا۔ گاؤں ہمارا دُور تھا، واقف اور شناسا یہاں کوئی نہ تھا اور یہ بھی سُنتے آئے تھے کہ ہمارے گاوں کا چوہدری لطیف برطانیہ میں کُتوں کی مالش کر کے پہلے مالدار بنا پھر وآپس آ کر چوہدی بنا اور کسی نے اُس کے منہ پر طعنہ نہ دیا۔

اگر ہم دو پَل کو بینڈ باجے بجا لیں گے تو کون سا لہنگا اُتر جائے گا۔ پھر یہ کہ کوئی دیکھ بھی نہیں رہا تھا، آخر تیار ہو ہی گئے اور سرجھکا کر آمادگی کا اشارہ دیا۔

بینڈ پروفیسر دین محمد نے تسلیم ورضا کی حالت دیکھ کر فورآً وردی ٹوپی ہماری طرف اُچھالی اور کہا لو بھئی چاہو تو اپنا نوابی خلعت اُتار کر اِسے پہن لو، چاہے اُسی کے اُوپر چڑھا لو۔

ہم نے جھٹ وہ بینڈ باجے کی وردی پہنی اور ایک دوسرے کو تمسخرانہ دیکھنے اور ہنسنے لگے۔ ظالموں نےمیرے گلے میں قد سے بڑا طوطی ڈال دیا اور صادق کی بغل میں فرانسیسی ہارن ٹھونس دیا۔

میں نے جب طُوطی میں پھونک ماری تو وہ ثابت ہی نکل گئی، کچھ آواز پیدا نہ ہوئی۔ یہی حال سدی کا تھا۔ ہماری حالت دیکھ کر دین محمد سٹپٹا گیا، اُکتا کر بولا یار شیدو یہ کہاں سے گنوار پکڑ لائے ہو۔ جاہلوں کو کچھ نہیں آتا۔ وہاں اِن کی شکلیں تھوڑی دکھانا تھیں؟

اس کے بعد پروفیسر صاحب نے مجھے طُوطی اور سدی کو ہارن سکھانے میں پندرہ منٹ لگا دیے کہ کیسے پھونک ماری جاتی ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ آخر کو ہم ہونہار نکلے اور جلد سیکھ گئے۔ کوئی ساڑھے گیارہ کےعمل میں ہمارے ٹانگے نے کاہنہ سٹیشن کے قریب گاؤں میں لینڈ کیا اور ایک بارات کو جا پکڑا۔

ہم کوئی آٹھ آدمی تھے اور ایک دو کے علاوہ سب اِدھر اُدھر سے پکڑے گئے تھے۔ سب کی اپنی اپنی مُرلی تھی، ایک کا سُر کعبے جاتا تھا تو دوسرے کا داتا صاحب۔

ڈھول کی تھاپ بینڈ سے نہیں ملتی تھی اور شہنائی کی ڈیڑھ اینٹ الگ تھی۔ غرض بینڈ باجا نہ تھا مُلاؤں کی فقہ تھی جن کے اپنے اپنے منہ تھے۔

میرا اپنا طوطی چار پانچ پھونکوں کے بعد کہیں جا کر ایک بار بجتا تھا۔ جبڑے پھونکیں مار مار کے ہلکان ہو گئے۔ اللہ جانے کیا کیا آوازیں نکلتی ہوں گی۔ اِتنے بے سُرے شور میں مجھے خود سنائی نہ دیتی تھیں۔

بارات والوں کو کچھ سمجھ نہ تھی، کیا بجا رہے ہیں۔ تب ایک روپے والے نوٹ بہت ہوتے تھے۔ باراتیے نوٹوں کی ویلیں دیے جاتے تھےاور چھڑی گھمانے والا یعنی پروفیسر دین محمد ویلیں پکڑے جاتا تھا۔ ایک آدمی سے ایک روپے کی ویل مَیں نے پکڑی تو دین محمد نے میری گُدی میں ایک دائیں ہاتھ کی جما دی، کہنے لگا رپوں پر نہیں طوطی پر دھیان دو۔

جبکہ مَیں دیکھ رہا تھا سدی نے آنکھ بچا کر کم از کم دس روپے کی ویل اُڑا لی تھی۔ قصہ مختصر، قافلہ مدھم رو میں چلا جاتا تھا کہ اچانک ایک ہنگامہ پیدا ہو گیا اور ساری بارات بمع بینڈ باجا کو بہا لے گیا۔

ہوا یہ کہ ایک وحشی گدھا اللہ جانے کہاں سے برآمد ہوا۔ نہایت بے تُکے عالم میں تھا جیسے نادر شاہ کا سانڈ پاگل ہو کر شاہی حمام میں گھُس گیا ہو۔ وہ گدھا خیبر میل کی طرح دوڑتا آیا اور ہیلی کاپٹر کے پنکھے کی تیزی سے دولتیاں چلانے لگا۔ منہ سے جھاگ چھوڑتا تھا اور باولا ہو کردانت مارتا تھا۔

چند لمحوں میں اُس نے تین چار بندے پھٹڑ کر کے گرا دیے۔ بارات میں ایسی ہل چل مچی کہ سب بھاگ اُٹھے۔ دولہا میاں خود سہروں سمیت قلابازیاں کھا گئے اور سڑک پر پڑے گائے کے گوبر میں نہا گئے۔ اُس کے سہرے گانے ایسے بکھر گئے جیسے پٹاخے کے پُرزے بکھرتے ہیں۔

مَیں بھی اپنے طوطی سمیت گرا۔ گدھے کی ایک دولتی میرے طُوطی کو ایسی لگی کہ اُس کے اگلے حصے میں چھ انچ کا ڈنٹ پڑ گیا۔ جیسے تیسے میں اُٹھا اور بھاگا۔ جس کا منہ جدھر آیا نکل گیا۔

دُولہے کے کپڑے ایسے ہو گئے جیسے کیچڑ سے کیچوا نکالا ہو۔ صادق میرے پیچھے تھا، اُس نے مجھے سہارا دیا۔ ہم گرتے پڑتے ایک گھر میں گھس گئے اور ایک موٹی تازی عورت کے پہلو میں امان پائی۔

اُس اللہ والی نے سر پر ہاتھ پھیرا، چاٹی کی ٹھنڈی لسی پلائی اور بیٹھنے کو چارپائی بچھائی۔ بولی پُتر تم واجے والے تو نہیں لگتے، کہیں اُن کا سامان تو نہیں لے کر بھاگے؟

ہم نے اُس بی بی کو ساری کتھا سنائی۔ ہماری حالت پر کبھی وہ ہنستی کبھی روہانسی ہوتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہوا کہ گدھا پاگل ہو گیا تھا، اُسے گولی مار دی گئی ہے۔ دولہا سمیت تمام باراتیوں اور بینڈ والوں سے گزارش ہے وہ جہاں کہیں پناہ لیے بیٹھے ہوں، گاؤں کے سکول میں اکٹھے ہو جائیں، وہیں کھانے کا بھی انتظام ہے۔

لیجیے حضرت، اعلان سُنتے ہی ہم سکول جا پہنچے۔ دیکھا تو دولہا سمیت اکثر باراتی موجود تھے اور اِس واردات پر ہنس رہے تھے۔

دولہے کے کپڑے بدلے گئے تھے۔ اب بینڈ باجے تو معطل ہوئے کہ دولہا والوں نے اُنھیں ویلیں کم ہونے کے سبب اکٹھے کچھ پیسے دے دیے تھے۔ تب کھانا شروع ہوا جو میٹھے چاول اور نان گوشت پر منحصر تھا اور بہت مزے کا تھا۔

چار بجے فارغ ہو گئے اور ساڑھے چار بجے دوبارہ کاہنہ قصبے پہنچ گئے۔ پروفیسر صاحب نے ہم سے وردی اُتروائی اور مزدوری کے ساتھ دس دس روپے کرایے کے اضافی دیے۔ یوں ہم وآپس پلٹے اور ایک دوسرے سے وعدہ لیا کہ یہ بات گاؤں میں نہیں بتائیں گے ورنہ ساری عمر بینڈ والے کہلائیں گے۔

تو بھائیو! اِس کہانی کے یہاں سنانے کا سبب یہ تھا کہ میں نے اس تحریر کے شروع میں چائے کے جس ہوٹل کا ذکر کیا تھا اور جہاں سے بہترین چائے پی تھی، 25 سال پہلے یہی بینڈ باجے کی دوکان تھی اور چائے بنانے والا آدمی پروفیسر دین محمد کا بیٹا تھا۔

اُس آدمی نے مجھے بتایا: کافی عرصے سے کوئی ہم سے بینڈ باجے کے لیے نہیں آتا تھا۔ لوگ سمجھنے لگے تھے کہ اگر ہم بینڈ والوں کو بلوائیں گے تو لوگ ہمیں گنوار دیہاتی کا طعنہ دیں گے۔ باپ میرا فاقوں سے مرا مگر آبائی کام نہ چھوڑا۔ پروفیسر صاحب دس سال پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اُس کے مرنے کے بعد مَیں نے بینڈ باجے جھاڑ پونچھ کے گھر میں رکھ دیے ہیں اور چائے کی دکان کھول لی۔ اللہ کا کرم ہے اب روٹی چل نکلی ہے۔

صاحبو، اُسے میں کیا بتاتا کہ ایک تو آپ کے ابا پروفیسر تھے۔ ایک ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نقاد پروفیسر ہیں، جو علم تو ایک طرف، بینڈ باجے کے بھی قابل نہیں۔ اورتو اور، آج کل ہم خود بھی پروفیسر ہیں، لیکن خدا کا شکرہے ضرورت پڑی تو آپ کے ابا کا سکھایا ہوا طوطی تو بجا ہی لیں گے!

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی