کوئی ایک جماعت ملک کو مسائل سے نہیں نکال سکتی: بلاول

زرداری ہاؤس میں افطار پارٹی کے بعد حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے رہنما پیپلز پارٹی کی افطار پارٹی میں شریک ہیں۔ تصویر: پی پی پی میڈیا سیل

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اعزاز میں افطار پارٹی کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان اتنے زیادہ مسائل میں گھرا ہوا ہے کہ اسے ایک جماعت اکیلی مشکلات سے نہیں نکال سکتی۔

زرداری ہاؤس، اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی، مریم نواز شریف، آفتاب شیرپاؤ اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں صحافیوں کو مشاورت کے بارے میں بتاتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ عید الفطر کے بعد کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) طلب کی جائے گی جس میں مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

آج کے افطار کی خاص بات بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کی فیس ٹو فیس حالیہ دنوں میں پہلی ’سیاسی ملاقات‘ تھی۔ مریم نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے افطار کی دعوت اس وجہ سے قبول کی کیونکہ بلاول ان کی والدہ کے انتقال پر ملنے آئے تھے اور بعد میں انہوں نے نواز شریف سے جیل میں جا کر ملاقات بھی کی تھی۔ 

بلاول کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ افطار اور اس کے علاوہ بھی حزب اختلاف کے رہنما ملتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی ملاقات میں پرسکون ماحول میں ملک کی سیاسی، معاشی اور حقوق انسانی کی صورتحال پر تفصیلی بات ہوئی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ عید کے بعد ہر جماعت اپنی سطح پر حکومتی پالیسیوں کے خلاف پارلیمان کے اندر اور باہر اپنا اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔

اے پی سی کے انعقاد کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمان کو سونپی گئی ہے، جنہوں نے کہا کہ عید کے بعد جلد ہی کُل جماعتی کانفرنس کی تاریخوں کا اعلان کر دیا جائے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تفصیلی مشاورت ہوگی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا: ’اس وقت ملک کو جو چیلنجز درپیش ہیں اور جس طرح ہم کمزور ترین ملک کے طور پر سامنے آرہے ہیں یہ ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ چھ سات مہینے کے اندر ملک ایک ایسے گہرے سمندر کی طرح ہوچکا ہے، جسے سنبھالنا تمام زعما کا مشترکہ فریضہ بن گیا ہے۔‘

مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا ہے کہ موجودہ حکومت ملک چلانے اورعوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور جولائی 2018 کے متناع الیکشن کا خمیازہ اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ حزب اختلاف اس مرتبہ پس پردہ قوتوں کو نشانہ بنائے گی۔

تاریخی افطار

افظار کا فیصلہ گذشتہ روز اسلام آباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں کیا گیا تھا، جس کی صدارت چیئرمین پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی۔

ملک میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال نے حزب اختلاف کو نیا ولولہ دیا ہے۔ تاہم آج کی ملاقات کے بعد  حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو کوئی فوری چیلنج دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی اس افطار کی دعوت کو حکومتی حلقوں میں توقعات کے مطابق اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور تمام دن وہ اس افطار کے خلاف بیانات دیتی رہیں۔

افطار کے آغاز سے قبل ہی ٹوئٹر پر سیاسی حریفوں میں ہیش ٹیگ کی جنگ چھڑ گئی تھی۔ تحریک انصاف کے حامی ’ابو بچاؤ افطار پارٹی‘ کا ٹرینڈ چلاتے رہے جس میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی پیش پیش رہے۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے ایکٹویسٹ ’پی ٹی آئی ایک افطار کی مار‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بیانات کی جنگ لڑتے رہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا: ’رمضان کا ماہ مقدس حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اس بابرکت مہینے میں عوام کو مسائل کا روزہ رکھوانے والے افطاریوں کی آڑ میں  ذاتی، سیاسی اور کاروباری مفادات کے تحفظ میں مصروف عمل ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کو اپنی نیت کی مار پڑ رہی ہے۔ یہ صرف اپنی دولت اور اولاد کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں افطار کے نام پر منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش کرنا افسوسناک ہے۔‘

دوسری جانب پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے افطار سے حکومت پریشان ہوگئی ہے۔ حزب اختلاف اکٹھی ہونے سے بیساکھیوں پر قائم حکومت لرز رہی ہے۔ فردوس عاشق اور شیخ رشید رونے کی ریہرسل شروع کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست