غیر ملکی کنٹریکٹرز کی روانگی افغان سکیورٹی فورسز کے لیے کیا مسائل لائے گی؟

18 ہزار کنٹریکٹرز کی افغانستان سے روانگی کے بعد حالات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کے پاس طالبان کے خلاف ایک ہی ترپ کا پتہ تھا اور اب وہ اتنی موثر نہیں رہی۔

21 اپریل کو کابل میں ایک بم دھماکے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات۔ غیرملکی افواج کے ساتھ کنٹریکٹرز کی روانگی بھی ملک کے لیے پریشان کن ہے (اے ایف پی)

افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی پیش قدمی عارضی ہے اور طالبان کو ملک پر قبضہ کرنے نہیں دیا جائے گا۔ وہ افغان فورسز کی پسپائی کو ’ٹیکٹیکل‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پسپائی اس لیے کی جا رہی ہے کہ فوجی بچائے جائیں۔

لیکن ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے تربیت یافتہ، امریکی سازو سامان سے لیس اور امریکی مالی معاونت سے کھڑی افغان فضائیہ کو فوری طور پر نئے جہاز چاہیئیں جن کا وعدہ امریکہ نے کیا ہوا ہے۔

پینٹاگون نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا کہ افغان فضائیہ کو 37 یو ایچ 60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز اور تین اے 29 سپر ٹکانو لائٹ اٹیک جہاز فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ سوویت زمانے کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹرز کے فلیٹ کی بھی مرمت کر کے دے گا۔ پینٹاگون کے ترجمان جان ایف کربی نے کہا کہ دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز بہت جلد افغان فضائیہ کو فراہم کر دیے جائیں گے۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹرز کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بری فوج کو سپورٹ کی بہت ضرورت ہے۔ افغانستان کو بلیک ہاک فی الفور چاہیئیں۔

امریکی سیکریٹری دفاع نے کہا کہ اگرچہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لی ہیں لیکن امریکہ افغان سکیورٹی فورسز کی تنخواہیں دیتے رہیں گے جس کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے۔

لیکن امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے، کیونکہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ امریکی کنٹریکٹرز بھی ملک سے روانہ ہو گئے ہیں۔

یہ کنٹریکٹرز ہی تھے جو افغان فضائیہ اور آرمرڈ گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور افغان سکیورٹی فورسز کا ان کنٹریکٹرز پر بہت زیادہ انحصار ہوتا تھا۔ لیکن ان 18 ہزار کنٹریکٹرز کی افغانستان سے روانگی کے بعد حالات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کے پاس طالبان کے خلاف ایک ہی ترپ کا پتہ تھا اور اب وہ اتنی موثر نہیں رہی۔ 

فضائیہ طالبان کے خلاف لڑائی میں کتنی موثر رہی ہے اس کا اعتراف امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کر چکے ہیں کہ افغان فضائیہ کا اس جنگ میں کلیدی کردار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینٹر فار نیول اینالیسس کے ڈائریکٹر جوناتھن شروڈن کا کہنا ہے کہ امریکی کنٹریکٹرز کے نہ ہونے کے باعث افغان فضائیہ کی دیکھ بھال اور مرمت کا کام نہیں ہو سکے گا اور جلد ہی افغان فضائیہ کا ایکشن محدود ہوتا چلا جائے گا۔ یعنی کہ جہاز اور ہیلی کاپٹرز نہیں اڑ سکیں۔ فضائیہ جو اڑ نہیں سکے گی اور بغیر فضائیہ کے افغان فوج پیش قدمی نہیں کر سکے گی۔

افغان سکیورٹی فورسز کے فوجی مشنز میں امریکی کنٹریکٹرز کا کلیدی کردار رہا ہے۔ وہ نہ صرف جنگی جہازوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے اہم تھے بلکہ ریڈیو کمیونیکیشن کے سامان کی دیکھ بھال، سرویلنس غباروں، آرٹلری کی مدد کے لیے ریڈار، ایندھن کی سپلائی اور یہاں تک کہ افغان سکیورٹی فورسز کی تنخواہ کے نظام کو بھی وہی چلاتے تھے۔

مختصراً امریکی کنٹریکٹرز کی غیر موجودگی میں افغان فورسز کے لیے جنگی جہاز اور کارگو جہاز کو اڑان کے قابل رکھنا ناممکن ہی لگتا ہے۔

امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی کنٹریکٹرز کے بغیر افغان فضائیہ کو کم و بیش گراؤنڈڈ ہی تصور کریں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ طالبان کے خلاف جاری جنگ میں افغان حکومت کے پاس ایک واحد سبقت دلانے والی فضائیہ ہی ہے۔ اور اگر فضائیہ کی دیکھ بھال نہ ہوئی اور جہاز اڑان کے قابل نہیں رہے تو وہ واحد سبقت بھی افغان حکومت کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔

امریکی رپورٹ کے مطابق افغان فضائیہ کے پاس 167 جہاز ہیں جن میں سے 136 جہاز قابل استعمال ہیں۔ افغان فورسز کے پاس اے سی 208، ایم ڈی 530 اور ایم آئی 17 کی کل تعداد 60 ہے جو کہ قابل استعمال ہیں۔ یہ تعداد قابل استعمال جہازوں کا 44 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے سی 208 کو 35 گھنٹے ماہانہ، ایم ڈی 530 کو 21 گھنٹے اور ایم آئی 17 کو 52 گھنٹے ماہانہ استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ ان جہازوں کی ماہانہ اڑان 25، 20 اور 40 گھنٹے ہونی چاہیے۔ تاہم رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جہازوں کو زیادہ استعمال کرنے کے باعث بھی افغان فضائیہ کے مشنز پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ امریکی کنٹریکٹرز نے زیادہ کام ہونے کے باوجود ان کی دیکھ بھال کی اور ان جہازوں کو اڑان کے قابل رکھا۔

اگر ایک جانب افغان حکومت کو جہازوں کو قابل اڑان رکھنے کا مسئلہ درکار ہے تو دوسری جانب اپنی فضائیہ کے پائلٹس کو بچانے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔

طالبان کو بخوبی علم ہے کہ متحرک افغان فضائیہ میدان جنگ کا نقشہ تبدیل کر سکتی ہے۔ اور اسی لیے گذشتہ چند ماہ کے دوران کم از کم سات آف ڈیوٹی پائلٹس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ پائلٹس کی ٹارگٹ کلنگ اب منظر عام پر آئی ہے اور امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان امریکہ اور نیٹو کے تربیت یافتہ پائلٹس کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ میدان جنگ میں ان کی سبقت رہے۔

طالبان کو علم ہے کہ یہی پائلٹس ان کی پیش قدمی روک سکتے ہیں، حملے سے قبل ہی طالبان کو ہلاک کر سکتے ہیں، سپیشل فورسز کی نقل و حمل میں مدد دے سکتے ہیں اور گھرے ہوئے فوجیوں تک فوجی رسد پہنچا سکتے تاکہ وہ اپنی پوزیشنیں سنبھالے رکھیں۔ طالبان جانتے ہیں کہ ایک پائلٹ بنانے میں سالوں لگتے ہیں اور ان ان کی جگہ نئے پائلٹس لانا نہایت مشکل ہے۔

افغان حکومت کو اس وقت صرف جہازوں کو اڑان کے قابل رکھنے جیسے مسئلے کا سامنا نہیں ہے بلکہ اس سے بڑا چیلنج ان جہازوں کو اڑانے والے پائلٹس کی حفاظت کرنے کا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ