میں نے آٹھ سال گیم آف تھرونز کو نظر انداز کیا اور پھر ۔۔۔

امریکی صحافی اور فلموں کے نقاد ویزلے مورس کی داستان، جنہوں نے ’گیم آف تھرونز‘ کی پوری سیریز پانچ ہفتے میں دیکھ ڈالی۔

گیم آف تھرونز کا ایک منظر ( ایچ بی او)

اسے ’عیش‘ کہنا بہت غلط ہوگا کیونکہ عیاشی میں اٹھائے جانے والے لطف میں خوف کا عنصر بہرحال موجود ہوتا ہے۔ لیکن پانچ ہفتوں میں گیم آف تھرونز کے تمام سیزنز ایک ساتھ دیکھنا ’شرمناک‘ ضرور لیکن لطف سے خالی نہیں ہے۔

یہ وقت بے وقت ہلکے پھلکے کھانے کی طرح ہے۔ یہ ایک وقت میں چاکلیٹ چپ آئس کریم کے 12 سکوپس کھانے کی طرح ہے، جب کہ بھوک ایک ہی سکوپ جتنی لگی ہو۔

کیا کسی  ٹیلی ویژن شو کی کئی اقساط ایک ہی نشست میں بیٹھ کردیکھنے کو’عیاشی‘ قرار دینا چاہیے۔ کیونکہ میں نے گذشتہ ماہ مقبول ٹی وی سیریز ’گیم آف تھرونز‘ کی تمام اقساط ایک ہی بار میں دیکھ ڈالیں۔ اس دوران میں نے جو محسوس کیا اسے عیاشی نہیں کہا جا سکتا۔

ان 70 گھنٹوں کے دوران مجھے زیادہ تر جو تجربہ ہوا اسے جلدی سے سب کچھ جان لینے کی خواہش ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس جلدی کو’عیاشی’ قراردینا ماضی میں دکھائے جانے والے کسی غیرمعیاری پروگرام کی طرح لگتا ہے، جب کوئی ٹیلی ویژن سیزن رات کو دکھایا جاتا تھا اور آپ کے پاس اسے دن میں ایک ہی بار دیکھنے کا اختیار ہوتا تھا۔

گیم آف تھرونز کے تمام سیزنز رات کو صرف اُس صورت میں دیکھے جائیں گے جب اسے پہلے نظرانداز کردیا گیا ہو۔ میں نے اس ٹیلی ویژن سیریز کے سات سیزنز تقریباً آٹھ برس تک نظرانداز کیے رکھے کیونکہ میرے کچھ اصول تھے۔

یہ ٹی وی شو 2011 میں شروع ہوا تھا۔ اُس وقت سابق امریکی صدربراک اوبامہ کا پہلا دور تھا۔ ایسے میں جاگیردارانہ نظام کی عکاسی کرنے والا یہ شو بڑا اچھا لگتا تھا۔  کوئی بھی ترقی چاہے کیسی ہی دکھائی دیتی ہو، اس کا گیمز آف تھرونز کی تصوراتی اور دورافتادہ سلطنت ’ویسٹروس‘ کے افسانوی کرداروں میں نظر آنے کا امکان نہیں تھا۔

جہاں تک ’واکنگ ڈیڈ‘ جیسی دوسری بے لطف ٹیلی ویژن سیریز دیکھنے کا تعلق ہے، میں ایسا کوئی کام دوبارہ نہیں کرنا چاہتا تھا، جسے کرنے کی کوشش پہلے بھی کر چکا ہوں۔ مجھے اس سیزن کے بارے میں دوسروں سے معلوم ہوتا تھا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ میں دو ہفتے کے لیے بیمار پڑ گیا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ گیم آف تھرونزکا اختتام قریب ہے۔

مہینوں تک میں ایک دن میں کسی ٹیلی ویژن سیریز کی ایک دن میں 3 یا 4 اقساط دیکھتا رہا ہوں۔ بعض اوقات میں نے اس سے بھی زیادہ قسطیں دیکھیں جومجھے سطحی لگیں۔

گیم آف تھرونز امریکی ناول نگار جارج آر مارٹن کے پانچ ناولوں کی سیریز ’اے سونگ آف آئس اینڈ فائر‘ (A song of ice and fire) پر مبنی ہے۔ آپ یہ کہانی پڑھ بھی سکتے ہیں کیونکہ سیریز ابتدا کے بعد ناولوں سے ہٹ گئی ہے۔

گیم آف تھرونز دیکھنے کے معاملے میں میرے 5 ہفتے دوسرے ناظرین کے 8 برسوں سے الگ نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے باوجود یہ وقت اُس تمام تر دلچسپی، امید اور غصے کے جذبات کے لیے کافی ہے جن سے سیریز دیکھنے کے دوران واسطہ پڑتا ہے۔ سیریز کے ہر شو کے درمیان طویل وقفہ ہوتا ہے۔ اس دوران اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جو بہت سے ناظرین کو برے لگتے ہیں لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔

گیم آف تھرونز کے بارے میں میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ یہ مجھے اپنا نہیں لگتا۔ 8 برس میں مجھے یہ ملکیت یا مقبولیت کے اعتبار سے پُرکشش نہیں لگا۔ کم از کم مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میں سیریز کے ایک کردار ڈنریس ٹارگارین (Daenerys Targaryen) عرف ’ڈریگنز کی ماں‘ عرف ’سلطنت کی محافظ‘ عرف ’زنجیریں توڑنے والی‘ عرف گوڈزیلا کو اتنا جانتا ہوں کہ گلیوں میں کسی کو ’ڈینی‘ کہہ کر پکاروں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گیم آف تھرونز کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھنا تفریح کا سبب ہے۔ شو کے حوالے سے جو باتیں مجھ تک پہنچیں ان سے بات نہیں بن سکی۔ مجھے سیریز کے ’ہاؤس آف سٹارک‘ کے ملازم ’ہوڈور‘ کے کردار کو دیکھے بغیر اس کے مطلب کا علم تھا۔ میں نے ڈریگنز اور’زومبیز‘ کے خوفناک کرداروں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ میں جانتا تھا کہ کسی نے امریکی اداکار جیسن موآ کو سیریز میں جلتا ہوا جھنڈا گاڑنے کے کردار کے لیے موزوں سمجھا تھا۔ سیریز میں ’سرخ شادی‘ کے دوران ہونے والا قتل عام بھی اچھا نہیں تھا۔

جس روز مذہبی انتہا پسندوں نے ملکہ سرسی لینسٹر کو اپنی ہی سلطنت میں بے لباس ہو کر چلنے پرمجبور کیا، مجھے یہ موقع بڑا مضحکہ خیز لگا۔

کچھ ہفتے بعد ہی بڑا سنجیدہ منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ لوگ ملکہ سرسی لینسٹر سے یکجہتی کا اظہار کررہے تھے۔ میں گیم آف تھرونزمیں شامل موسیقی پر غور کر رہا تھا جس میں غیرمنطقی رومانوی گیت شامل ہیں۔

ایک ماہ سے کچھ زیادہ وقت میں مجھے گیم آف تھرونز میں دکھایا گیا ظلم، لڑائیاں، کرداروں کی نازکی، پھانسی کے موقعوں پر مسکراتے چہرے اور جنسی بھوک سب ہضم ہوگئے۔

کسی ٹیلی ویژن سیزن سے مانوس ہونے کے لیے تو پانچ ماہ کافی ہوتے ہیں لیکن اتنا وقت سیزن کا مداح بننے کے لیے کم ہے۔

ممکن ہے آپ ٹیلی ویژن کا کوئی سیزن ایک ہی دن میں دیکھ  لیں تاکہ کہہ سکیں کہ آپ بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے ایک ہی دن میں سیزن دیکھا۔ لیکن اگر آپ یہ سیزن ایک ماہ میں دیکھتے ہیں تو سب سے آخر میں ایسا کرنے والے افراد میں شامل ہونا کیسا لگے گا؟

اگرمیں گیم آف تھرونز دیکھنے کے لیے پہلے آسمان پر اور پھر زمین پر تھا توکیا ہوا؟ اتوار کو سیزن کا اختتام دیکھنے والوں کے جذبات مجھ سے زیادہ بھاری ہوں گے۔ یہ لوگ امید، خوف اور کئی برس کی سرمایہ کاری لے کر آئیں گے اور میں صرف شراب لاؤں گا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی