ایک سادہ سوال سے کتنی سرخیاں نکل سکتی ہیں؟

کرکٹ کا کھیل ہو یا جنگ کا میدان جہاں کہیں بھی پاکستان اور بھارت ایک جگہ موجود ہوں وہاں سوال جتنا مرضی سادہ ہو، سرخیاں گرما گرم ہی آتی ہیں۔

آئی سی سی کی جانب سے تمام دس کپتانوں کو  ایک ساتھ صحافیوں کے  سولات کے جوابات دینے کے لیے جمع کیا گیا (اے ایف پی)

کرکٹ کا عالمی میلہ سجنے کو ہے، تمام ٹیمیں انگلینڈ پہنچ چکی ہیں اور وارم اپ میچز شروع ہونے والے ہیں۔

آئی سی سی نے تمام کپتانوں کے ساتھ ایک بیٹھک کا اہتمام کیا جسے فیس بک پر لائیو بھی نشر کیا گیا۔

ساری ٹیموں کے کپتان اپنی اپنی ورلڈ کپ کٹس پہنے وہاں لگے صوفوں پر بیٹھے تھے، اور ریلیکس ماحول میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ کچھ دن بعد یہی دس کے دس کپتان ایک دوسرے کے خلاف ’میدان جنگ‘ میں اترنے والے ہیں۔

اس موقع پر وہاں صحافی بھی موجود تھے اور ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ صحافی موجود ہوں اور اپنے سوالات سے سنسنی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ 

سوالات تو بہت کیے گئے اور تمام ہی کپتانوں نے بڑے ہی اطمینان سے جوابات دئیے۔ ارے بھئی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی نے انتہائی اطمینان سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ہو اور بات وہیں ختم ہو گئی ہو؟

وہاں موجود ہر صحافی کو ان کے ادارے نے صرف اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ ’سرخی سب سے الگ ہونی چاہیے۔‘

چلیں ہم صحافیوں کی کپتانوں کے ساتھ اس بیٹھک میں پوچھے گئے تمام سوالات کو چھوڑ کر صرف ایک ہی سوال کے جواب سے الگ الگ سرخیاں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

صحافی نے سوال کیا کہ جب بھی پاکستان اور انڈیا کہ درمیان میچ ہوتا ہے تو ٹکٹ نہیں ملتے، سنسنی پھیل جاتی ہے، ہر طرف صرف اسی میچ پر بات ہوتی ہے، تو آپ دونوں کیسے دیکھتے ہیں اس میچ کو؟

اب یہ سوال ایسا تھا جو ہر پاکستان اور انڈیا کے میچ سے قبل ضرور پوچھا جاتا ہے اور جواب بھی تقریباً ہمیشہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔

لیکن دیکھیے اس ایک سوال اور اس کے انتہائی سادہ سے جواب سے کیسی سنسنی خیز خبر بنتی ہے۔

سوال ختم ہونے پر سرفراز احمد اور ویراٹ کوہلی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا (پہلی سرخی) تو ویراٹ نے پاکستان ٹیم کے کپتان کو پہلے جواب دینے کی دعوت دی۔ (دوسری سرخی)

پہلے تو سرفراز مسکرائے، اور پھر چند لمحے کی خاموشی کے بعد ایک انتہائی ’پھیکا‘ سا جواب دیا کہ ’میں جلد اپنا واٹس ایپ نمبر بدلنے والا ہوں۔‘ (ایک اور سرخی)

تمام کپتانوں کے قہقہوں میں ویراٹ کوہلی نے تفصیلی لیکن روایتی سا جواب دیا کہ ’دونوں ہی ٹیمیں اس میچ کو بھی دیگر میچوں کی طرح کھیلتی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد سرفراز احمد سے دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نےایک اور سرخی دے ڈالی، اور کہا ’میرا جواب بھی وہ ہی ہے جو کوہلی نے کہا۔‘

اب یہ ہیں تو بہت ہی مثبت سرخیاں اور کہیں بھی چل سکتی ہیں لیکن سنسنی نہیں پیدا ہوتی۔

اسی ایک سوال کو بنیاد بناتے ہوئے ایک انتہائی مثبت انداز میں ہونے والی پریس کانفرنس میں سے سنسنی خیز خبر نکالتے ہیں۔

جب سوال دونوں کپتانوں سے ہوا تھا تو سرفراز نے کوہلی کی طرف دیکھا ہی کیوں، اور کیا سرفراز کے پاس خود کچھ کہنے کو نہیں تھا جو کہہ دیا کہ کوہلی والا جواب ہے ہماری طرف سے بھی لے لیں۔

کوہلی کو بھی کیا بڑا پن دکھانے کے لیے یہی جگہ ملی تھی جو سرفراز یعنی پاکستانی ٹیم کے کپتان کو پہلے بولنے دیا، اور یہ کیوں کہا کہ سب میچوں ہی کی طرح یہ میچ بھی کھیلیں گے، یہ کیوں نہیں کہا کہ جنگ کے لیے میدان میں اتریں گے اور پاکستان کے دانت کھٹے کریں گے۔

لیکن شکر ہے ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے، ورنہ کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کا نام آتے ہی ’سرخی‘ وہ ہو جو ’بِک‘ جائے، میچ کو جنگ میں تبدیل کر دیا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ