برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟

جمعے کو 10 ڈاوننگ سٹریٹ پر خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا، دیکھنا یہ ہے کہ ان کی جانشینی کا تاج کس کے سر سجتا ہے۔

دائیں سے بائیں: ساجد جاوید، ڈومینک راب، لز ٹرس، مائیکل گوو، جیریمی ہنٹ، آنڈریا لیڈسم اور بورس جانسن

برطانیہ کے سیاسی افق پر چھائے غیریقینی کے بادل آخر کارایسے برسے کہ بریگزٹ کا سیلاب ٹریزا مے کی وزارتِ عظمیٰ کو بہا لے گیا۔

جمعے کو 10 ڈاوننگ سٹریٹ پر خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حکمران کنزرویٹیو پارٹی کی ہزیمت اور بریگزٹ پلان کے خلاف اپنی ہی کابینہ کی جانب سے بڑھتی ہوئی بغاوت کے بعد برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے کے مستعفیٰ ہونے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مے کی جانشینی کا تاج کس کے سر سجے گا۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کی دوڑ میں وزیرداخلہ ساجد جاوید، وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ، وزیرخزانہ لز ٹرس اور دارالعوام میں کنزرویٹیو پارٹی کی سابق رہنما وزیر آنڈریا لیڈسم، سابق وزیر خارجہ بورس جانسن، وزیر ماحولیات مائیکل گوو اور بریگزٹ کے سابق وزیر ڈومینک راب  شامل ہیں۔

ٹریزا مے کے ممکنہ جانشینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ساجد جاوید

سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بریگزٹ کا پہلا شکار بنے تھے اور ان  کے استعفے کے بعد وزارت عظمیٰ کا قرعہ اس وقت کی وزیر داخلہ ٹریزا مے کے نام ہی نکلا تھا۔

پاکستانی نژاد ساجد جاوید بریگزٹ کے بڑے حامی رہے ہیں اور کابینہ کے اجلاسوں میں وہ ٹریزا مے کو مستقل چیلنچ کرتے رہے ہیں۔

ساجد جاوید کی جذباتی کہانی سب کو معلوم ہے کہ کیسے ایک پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا جب برطانیہ پہنچا تو اس کی جیب میں صرف ایک پاؤنڈ تھا اور سیاسی جدوجہد کے بعد آج وہ محنت کش انسان برطانیہ کی کابینہ میں سب سے اہم وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔

ساجد، مے کے استعفے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے اہم امیدوار ہیں تاہم حال ہی میں ان کے کچھ متنازع فیصلوں سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ زیر سمندر انگلش چینل کے ذریعے پناہ گزینوں کی برطانیہ آمد اور داعش کی رکن شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت ختم کرنے کے فیصلوں پر ان کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بورس جانسن

گذشتہ جولائی کو ٹریزا مے سے چیکرز پلان پر اختلاف کے بعد بورس جانسن کابینہ سے الگ ہو گئے تھے۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’نو ڈیل ایگزٹ‘ معاہدہ 2016 کے ریفرنڈم کے نتائج کی عکاسی کرے گا۔

بورس لندن کے میئر بھی رہ چکے ہیں اور بطور ’ہینیکین امیدوار‘ انہوں نے اتنے ووٹ حاصل کیے تھے جتنے ٹوریز کا کوئی اور امیدوار کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

 تاہم بطور وزیر خارجہ ان کی شہرت کا ستارہ ماند پڑ گیا اور وہ ٹوری کے ارکان پارلیمان کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

اگر بورس شارٹ لسٹ ہوتے ہیں تو حکمران جماعت کے سرگرم کارکنوں میں ان کی مقبولیت انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے ایک زبردست موقع فراہم کرے گی۔

لیکن ان کے ناقدین پہلے ہی ’سٹاپ بورس‘مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔

آنڈریا لیڈسم

مے کے نئے بریگزٹ  معاہدے پر اختلاف کی وجہ سے برطانوی پارلیمان کی ایوان زیریں دارالعوام میں کنزرویٹیو پارٹی کی رہنما وزیر آنڈریا لیڈسم نے گذشتہ بدھ کو استعفیٰ دے دیا تھا۔

ڈیوڈ کیمرون کے مستعفیٰ ہونے کے بعد آنڈریا لیڈسم وزارت عظمیٰ کے لیے اہم امیدوار تھیں لیکن 2016 کے اتخابات میں ان کی ناتجربہ کاری ان کے آڑے آگئی تھی۔

دارالعوام میں کنزرویٹیو پارٹی کی سابق رہنما وزیر بھی بریگزٹ کی بڑی حامی رہی ہیں۔

جیریمی ہنٹ

وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے 2016 کے ریفرینڈم میں بریگزٹ معاہدے کی مخالفت کی تھی لیکن اب وہ اس سوچ کو مسترد کر چکے ہیں۔

اب انہیں دوبارہ بریگزٹر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ٹیبل پر ’نوڈیل‘ معاہدہ چاہتے ہیں۔

وہ وزارت عظمیٰ کے ایسے امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں جو دھڑوں میں بٹے ہوئے ٹوریز کو دوبارہ متحد کرسکتے ہیں۔

 ٹوری کے اراکین شاید اب بھی ان کو بریگزٹ کے مخالف کے طور پر پرکھتے ہیں۔

انہیں ساجد جاوید پر کچھ برتری حاصل ہے لیکن وہ کبھی ان کو پچھاڑ کر آگے نہیں بڑھنا چاہیں گے۔

مائیکل گوو

جانسن کے ساتھ انہوں نے 2016 کے ریفرنڈم میں بریگزٹ کی حمایت میں ہونے والی مہم کی قیادت کی تھی۔

مائیکل گوو کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ کامیاب وزراء میں سے ایک ہیں۔ ٹریزا مے نے 2017 میں انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کیا تھا۔

حالیہ بحران میں گوو نے کابینہ سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا تاہم بہت سے لوگ اب بریگزٹ کو بچانے کے لئے ان کی حکمت عملی کو اپنانے پر غور کر رہے ہیں۔

ڈومینک راب

راب نے بطور بریگزٹ سیکرٹری اس وقت استعفیٰ دیا تھا جب ان کے وزیراعظم ٹریزا مے سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔  انہیں شکایت تھی کہ مے اور ان کی سول سروس مذاکرات کار اولی روبین نے ان کو تمام عمل سے باہر رکھا۔

2016 کے ریفرنڈم میں انہوں نےمے اور ان کے اتحادیوں کو خوب متاثر کیا تھا لیکن بطور بریگزٹ سیکرٹری وہ برسلز کے حکام کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

وزارت عظمیٰ کے لیے وہ ایک نیا چہرہ ہیں لیکن کابینہ میں ان کی ناتجربہ کاری اس دوڑ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔

میٹ ہین کک

40 سالہ میٹ قیادت کی دوڑ میں سب سے کم عمر لیکن مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔

میٹ ہین کک ٹریزا مے کی کابینہ میں اہم وزارت پر فائز تھے۔

2010 میں رکن پارلیمان بننے سے قبل وہ جارج اوسبورن کے چیف آف سٹاف رہ چکے تھے۔

بطور وزیرثقافت انہوں نے ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ کی طاقت کو سمجھتے ہوئے انقلابی اقدامات اٹھائے تھے۔ وزیر صحت بننے کے بعد اس شعبے میں بھی قابلیت کا مظاہرہ کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ